غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل کی ایک عدالت کی جانب سے فلسطینی قیدی کی مدت حراست میں اضافہ کیے جانے پر انسانی حقوق کے حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے صہیونی عدالت کے فیصلے کو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم ’مرکز برائے انسانی حقوق‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے 28 سالہ فلسطینی قیدی جہاد خالد ابو حداید کی پہلے سے سنائی گئی چھ سال قید کو بڑھا کر 8 سال کردیا ہے۔ اسرائیلی سپریم کورٹ کا یہ اقدام بین الاقوانی انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔بیان میں نام نہاد اسرائیلی عدلیہ کے فیصلوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی نسل پرستانہ پالیسیوں کی طرح اس کا نظام عدل بھی بین الاقوامی قوانین کے ادنیٰ معیار پربھی پورا نہیں اترتا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسیر حداید کے خلاف دوبارہ مقدمہ شروع کرنا اور عدالت کی طرف سے سزا پرنظرثانی کرتے ہوئے ملزم کی مدت حراست میں مزید دو سال کا اضافہ بین الاقوامی قوانین کی کھلے عام پامالی ہے۔
المیزان کا کہنا ہے کہ صہیونی تفتیش کاروں نے ظلم وستم اور اذیتوں کے ذریعے فلسطینی قیدی سے اعتراف جرم کرانے کا مکروہ حربہ استعمال کیا جسے کسی صورت میں انسانی اور عالمی قوانین کی رو سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج نے فلسطینی شہری ابو حداید کو 25 جولائی 2014ء کو غزہ کے علاقے خان یونس کے الفخاری قصبے سے حراست میں لیا تھا۔
ابو حداید نے انسانی حقوق مرکز کے مندوب کو بتایا تھا کہ صہیونی تفتیش کاروں نے اسے تشدد کرکے اعتراف جرم کرنے پر مجبور کیا تھا۔ حداید پر فلسطینی مزاحمت کاروں سے تعلق اور اسرائیلی فوجیوں کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میں حصہ لینے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور عدالت نے اسے چھ سال قید کی سزا سنائی تھی مگر صہیونی پراسیکیوٹر نے سزا کو ناکافی قرار دے کر فیصلے کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ حال ہی میں اسرائیلی عدالت نے اپنے فیصلے میں حداید کی سزا میں مزید دو سال کا اضافہ کردیا ہے۔