(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے سماجی رابطے پر سرگرم کارکنوں کو دبانے اورسوشل میڈیا کا گلا گھونٹے کے لیے نئی قانون سازی شروع کی ہے۔ اگریہ قانون منظور ہوجاتا ہے اس کے پوسٹ کرنے والے سماجی کارکن کو 78 ہزار ڈالر جرمانہ کی سزا دی جاسکے گی۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پارلیمنٹ میں سوشل میڈیا پر پابندیوں کے لیے نئے قانون پر رائے شماری گذشتہ جمعرات کے روز کی گئی۔ پہلی رائے شماری میں اس قانون کو بحث کے لیے منظور کرلیا گیا ہے۔ دوسری اور تیسری رائے شماری بعد میں کی جائے گی۔رپورٹ کے مطابق حکومت سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے ایک نیا قانون منظور کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس قانون کے تحت سماجی رابطے کی مقبول ویب سائیٹس فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر اسرائیل مخالف مواد پوسٹ کرنے پر متعلقہ صارف کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اسرائیل کے خلاف سرگرم بلاگرز کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں 78 ہزار امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ کی سزا بھی بھگتنا ہوگی۔ متنازع مواد پوسٹ ہونے کے 48 گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ شخص کے خلاف قانونی کارروائی کردی جائے گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس قانون کی بھاری تائید اور حمایت موجود ہے۔ قانون پیش کرنے کے لیے قانونی مسودے پر حکومت کی حامی اور اپوزیشن جماعتوں کے 21 ارکان نے دستخط کیے ہیں جب کہ پہلی رائے شماری میں 4 ارکان نے مخالفت اور 50 نے حمایت کی اور ایک رکن نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا گلا گھونٹنے کے اس متنازع قانون کا اصل ہدف فلسطینی شہری ہیں۔ صہیونی ریاست نام نہاد قوانین کی آڑ میں سوشل میڈٰیا پر اسرائیلی فوج کے جرائم کو بے نقاب کرنے والوں کو دبانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ قابض فوج کے جرائم پر پردہ ڈالا جاسکے۔
اسرائیل میں یہ متنازع قانون ایک ایسے وقت میں زیربحث ہے جب دوسری جانب فلسطین میں صہیونی ریاست کے جبرو تشدد کے خلاف انفردی مزاحمتی کارروائیوں کی شکل میں تحریک انتفاضہ القدس جاری ہے۔ اسرائیل فلسطینی تحریک انتفاضہ کو دہشت گردی کی تحریک قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں کو اس تحریک کی حمایت کے سنگین نتائج پر انتباہ کرچکا ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کے عرب کمیونٹی کے نمائندہ رکن عبدالحکیم حاج یحییٰ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر قدغنوں کے نئے قانون کا ہدف فلسطینی شہری اور عرب عوام ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر سرگرم فلسطینیوں کو بھاری جرمانوں کے مذکورہ قانون کو صہیونی ریاست کی نسل پرستی کی ایک نئی شکل قرار دیا ہے۔