فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایرانی عہدیدار حسین امیر عبداللھیان نے ان خیالات کا اظہار تہران میں کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی میزبانی میں چھٹی فلسطین انتفاضہ کانفرنس کا مقصد قضیہ فلسطین کو ایک بار پھرعالمی سطح پر فوری نوعیت کے حل طلب مسئلےکے طور پراجاگر کرنا ہے۔ ہم عالمی برادری، علاقائی قوتوں اور مسلمان ممالک کی توجہ مسئلہ فلسطین کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو اس وقت زیادہ حساس اور نازک ہوتا جا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں امیر عبداللھیان نے کہا کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد امریکی انتظامیہ نے صہیونی ریاست کی ظالمانہ پالیسیوں کی پہلے سے بڑھ کر حمایت کرنا شروع کردی ہے۔ اس لیے امریکا میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مسئلہ فلسطین زیادہ حساس اور نازک شکل اختیار کررہا ہے۔
حسین عبداللھیان جو انتفاضہ کانفرنس کے سیکرٹری جنرل بھی ہوں گے کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے دوران چار الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو اپنے اپنے مخصوص اہداف پر مسئلہ فلسطین کو اجاگر کریں گی۔ ایک کمیٹی عالمی پارلیمانوں کے ساتھ مسئلہ فلسطین پر بات کرے گی۔ دوسری کمیٹی این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کرے گی، تیسری کمیٹی انسانی حقوق کے ایشوز کو قانونی ماہرین کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر اٹھائے گی۔ یہ کمیٹی فلسطین میں صہیونی آباد کاری کے خلاف مزاحمت کرنے والی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
امیرعبداللھیان نے اس امر کی تردید کہ ایران فلسطینیوں کی حمایت کی آڑ میں خطے میں اپنے اثرو نفوذ کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران مسئلہ فلسطین کی حمایت کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ہرگز استعمال نہیں کرے گا۔ فلسطینیوں کی حمایت تمام مسلمانوں کا دینی فریضہ، آئینی، اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری ہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت ایران کے دستور کا حصہ ہے۔