مقبوضہ بیت المقدس ( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام ہو یا ارض فلسطین میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات ہوں عرب ممالک کی طرف سے ان پر بہ ظاہر مخالفت کا تاثر دیاجاتا ہے۔ فلسطینیوں پرمظالم کی بہ ظاہر مذمت بھی کی جاتی ہے مگر اندر ہی اندر سے عرب ممالک صیہونی ریاست کے معاون اور مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین خفیہ تعلقات اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا ایک بار پھر گرما گرم موضوع ہیں۔ اسرایلی میڈیا رپورٹس میں کھلے الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ عرب ممالک کی طرف سے مذمتی پالیسی کو ان ممالک کی سرکاری پالیسی نہ سمجھا جائے کیونکہ ان ممالک کی جانب سے صیہونی ریاست کے ساتھ اندر خانہ تعاون جاری ہے۔عبرانی نیوز ویب پورٹل ’وللا‘ کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کا فلسطینیوں کی حمایت پر مبنی اعلانیہ مؤقف اور ان کی اصل پالیسی میں واضح فرق ہے۔ فلسطینیوں کے قتل عام پر عرب ممالک مذمت کرتے ہیں مگر عملا انہوں نے اسرائیل کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔
غزہ کی پٹی میں حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں درجنوں فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ عرب ممالک نے اسرائیلی فوج کے پرتشدد واقعات کی اعلانیہ مذمت کی مگر اندر ہی اندر یہ ممالک اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔
عبرانی ویب سائیٹ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ فلسطینیوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے جب کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکا میں یہودی تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے رہے اور انہیں یہ یقین دلاتے رہے کہ فلسطین میں یہودیوں کو اپنا قومی وطن قائم کرنے کا حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کےدرمیان تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اسرائیل اور عرب ممالک کا دشمن ایک ہی ہے۔ ان کا اشارہ ایران کی جانب تھا۔
خفیہ ملاقاتوں کی لیک ہونے والی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے یہودی رہنماؤں سے ملاقات میں فلسطینی اتھارٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ فلسطینیوں کو صدر ٹرمپ کی امن تجاویز تسلیم کرنا ہوں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا سے ابو دیس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کا فارمولہ بھی شہزادہ محمد بن سلمان ہی فلسطینی قیادت تک پہنچائے۔
حال ہی میں القدس میں امریکی سفارت خانے کے افتتاح کی تقریب سے خطاب میں ٹرمپ کے داماد جارڈ کوشنر نے بھی عرب ممالک کے بارے میں ایسے ہی اشارے دیئے۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں حالات اسرائیل کے حق میں سازگار ہوچکے ہیں۔ یہاں کے حلیف بھی اکھٹے اور ہدف بھی ایک ہے۔
انہوں نے شام میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں پر بحرینی وزیرخارجہ کے بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
‘وللا‘ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے تشدد کی مذمت کی مگر دوسری طرف یہی امارات اسرائیلی تاجروں کا اپنے ملک میں استقبال کررہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مصر اور اسرائیل دونوں جزیرہ نما سینا میں داعش کو اپنا مشترکہ دشمن اور ہدف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح غزہ کی پٹی کا محاصرہ جاری رکھنے میں بھی عرب ممالک کی اسرائیل کو اشیرباد حاصل ہے کیونکہ غزہ کا انتظام حماس کے پاس ہے اور عرب ممالک حماس پر ایران نواز تنظیم ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔