فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اُردن میں اسرائیل کے سابق سفیرعودید عیران نے حال ہی میں ایک مضمون میں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جیو۔پولیٹیکل سرگرمیوں اور عالمی بائیکاٹ تحریک کے اثرات کم کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
فاضل صہیونی مضمون نگارکا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم کردہ اسرائیلی کارخانوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کے بائیکاٹ کے اثرات پربھی خامہ فرسائی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل کی بعض داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر عالمی رائے عامہ تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ عالمی کمپنیاں اور اقوام عالم کے اسرائیل کے بارے میں خیالات بدل رہے ہیں۔ نرم گوشہ رکھنے والی اقوام بھی اسرائیلی حکومت سے سخت ناراض ہیں۔ عالمی سطح پر سامنے آنے والی ناراضی کو دیکھتے ہوئے اسرائیل نے مشرق وسطٰیٰ کو ایک نئے میدان کے طور پر چُنا ہے، جہاں صہیونی ریاست اپنے تزویراتی، عسکری اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے تیزی کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔
اسرائیل کے سیاسی حلقوں اور اشرافیہ کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر بائیکاٹ تحریک کے اثرات سے اسرائیل کو معاشی اور اقتصادی میدان میں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے مگر مشرق وسطیٰ کا میدان اسرائیل کو درپیش معاشی خسارے کا تدارک کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ تل ابیب یونیورسٹی کے مرکز برائےقومی سلامتی کی ویب سائیٹ پر شائع مضمون میں سفارت کار عودید عیران لکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی اقتصادی سرگرمیاں چند دنوں اور مہینوں کی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے جاری و ساری ہے۔ اگرچہ اس وقت اسرائیل کی تمام تر توجہ پڑوسی عرب ملک مصر کی طرف ہے مگر خطے کے دوسرے ممالک بالخصوص بحر متوسط کے ذریعے اسرائیل سے ملنے والے قبرص اور یونان بھی تل ابیب کے لیے سرمایہ کاری کا اہم ترین میدان ثابت ہوں گے۔ ترکی کے ساتھ اگرچہ اسرائیل کو سخت ناراضی ہے مگر تل ابیب موجودہ سرد جنگ کے علی الرغم ترکی کی اہمیت سے غافل نہیں ہے۔