مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) انتہا پسند صہیونی وزیر دفاع ایویگڈور لائبرمین نے کہا ہے:امریکا نے اسرائیل کو واضح لفظوں میں خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے غربِ اردن پر اپنی عمل داری قائم کرنے کی کوشش کی تو اس کا ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ فوری بحران پیدا ہوجائے گا۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق لائبرمین نے اسرائیلی پارلیمان کی دفاع اور خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں کہا ہے:’’ ہمیں امریکا کی جانب سے ایک براہ راست پیغام موصول ہوا ہے۔یہ بالواسطہ یا اشارے کنائے میں کوئی پیغام نہیں ہے۔ وہ یہ کہ اگر یہودا اور سمیریا پر اسرائیلی خود مختاری مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اسرائیل کا امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ فوری ایک بحران پیدا ہوجائےگا‘‘۔واضح رہے کہ اسرائیلی عہدہ دار دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے کے لیے عبرانی اصطلاحیں یہودا اور سمیریا استعمال کرتے ہیں۔اسرائیل نے 1967ء کی مشرق وسطیٰ جنگ کے وقت سے اس علاقے پر قبضہ کررکھا ہے اور وہاں آباد فلسطینیوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔
اسرائیلی وزیردفاع لائبرمین وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ سے تعلق رکھنے والے پارلیمان کے ایک رکن میکی ظہر کے ایک میڈیا انٹرویو کا جواب دے رہے تھے۔میکی ظہر نے اس انٹرویو میں اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے دو ریاستی حل کو مسترد کردیا ہے اور ’’ یک ریاستی حل‘‘ کی وکالت کی ہے جس میں فلسطینیوں کو اسرائیلی شہریت دی جائے گی۔
انھوں نے ایک اسرائیلی ٹی وی چینل آئی 24 سے انٹرویو میں کہا:’’ دو ریاستی حل مردہ ہو چکا ہے۔اب ایک ریاستی حل ہی باقی رہ گیا ہے۔اس میں عربوں کو مکمل شہریت حاصل نہیں ہوگی کیونکہ اس طرح انھیں الکنیست کے ارکان کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کا حق حاصل ہو سکتا ہے۔ انھیں تمام حقوق حاصل ہوں گے لیکن اسرائیلی پارلیمان کے لیے ووٹ کا حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ وہ اپنے شہروں میں اسرائیلی خود مختاری میں رہتے ہوئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرسکیں گے اور وہاں اپنی انتظامیہ بنا سکیں گے‘‘۔
لائبرمین نے اس کے ردعمل میں کہا ہے کہ انھیں پوری دنیا سے فون کال موصول ہوئی ہیں اور ان سے استفسار کیا گیا ہے کہ کیا میکی ظہر کی تجویز اسرائیلی حکومت کے موقف کی عکاس ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر اسرائیل غربِ اردن پر اپنی حاکمیت اور خود مختاری قائم کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اس کو فلسطینیوں کا معاشی بوجھ بھی اٹھانا ہوگا۔
انھوں نے حکمراں اتحاد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا موقف دوٹوک الفاظ میں بیان کرے اور یہ واضح کرے کہ اس کا غرب اردن پر اپنی خود مختاری قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
دوسری جانب امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک اسرائیلی ،فلسطینی تنازعے کے دو ریاستی حل کے حوالے سے اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے۔البتہ انھوں نے گذشتہ ماہ یہ کہا تھا کہ دونوں فریق تنازعے کا جو بھی حل قبول کریں گے ،وہ اس کی حمایت کریں گے۔