مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے تل ابیب میں متعیّن بیلجیئن سفیر کی سرزنش کا حکم دیا ہے۔ ان کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے اپنے وزیراعظم چارلس میشل کے صہیونی ریاست کے حالیہ دورے کے موقع پر ان کی اسرائیل کی انسانی حقوق کی دو تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔
نیتن یاہو نے مہمان وزیراعظم چارلس میشل سے مقبوضہ بیت المقدس میں ملاقات کی تھی۔ اس کے ایک روز بعد اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”اسرائیل آج ہونے والی ملاقات کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ بیلجیئم کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ سمت تبدیل کرنا چاہتا ہے یا اسرائیل مخالف لائن پر ہی چلنا چاہتا ہے”۔اسرائیلی چینل 10 کی رپورٹ کے مطابق چارلس میشل نے انسانی حقوق کی تنظیم بی تسلیم اور اسرائیلی مشاورتی گروپ ”خاموشی توڑیے” (بریکنگ دا سائلنس) کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔ اسرائیل کے دائیں بازو کے سیاست دانوں ان دونوں تنظیموں کے سخت خلاف ہیں کیونکہ ان کے عہدہ دار اسرائیلی فورسز کے فلسطینیوں کے خلاف مظالم کے واقعات کو منظرعام پر لاتے رہتے ہیں۔
ان دونوں تنظیموں پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ بیرون ملک اسرائیل کے تشخص کو مجروح کررہی ہیں ۔ نیز انھوں نے اسرائیلی فوجیوں اور حکام کے خلاف قانونی چارہ جوئیوں کی راہ ہموار کی ہے اور ان کے فراہم کردہ شواہد کی بنا پر صہیونی فوجیوں اور حکام کو عدالتی کارروائیوں کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔
بی تسلیم خاص طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہود آبادکاروں کے لیے نئے مکانوں اور بستیوں کی تعمیر کے خلاف کام کررہی ہے اور اس نے اسرائیلی حکومت کی قبضے کی کارروائیوں کے خلاف ایک مہم برپا کررکھی ہے جس پر وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے حواری چراغ پا ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت نے 2016ء میں ایک قانون کی منظوری دی تھی جس کے تحت بیرونی حکومتوں یا اداروں سے اپنے بجٹ کا نصف سے زیادہ وصول کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں ( این جی اوز ) کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عطیات کی تفصیل فراہم کریں۔ اس قانون کا بظاہر مقصد بائیں بازو کی تنظیموں ”بی تسلیم” اور ”خاموشی توڑیے” ہی کو ہدف بنانا تھا اور اس قانون پر بین الاقوامی سطح پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔