اسرائیل کی ایک عبرانی نیوز ویب سائیٹ ’دیپکا‘ نے امریکا اور اسرائیل کے سینیر عہدیداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ آئندہ ماہ جون کے وسط میں سامنے آجائے گا۔ عبرانی ویب سائیٹ کے مطابق چاہئے فلسطینی امن منصوبے کو مانیں یا نہ مانیں امریکا اس کا اعلان کرے گا۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پانچ امریکی عہدیداروں نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ امریکا نے اپنا امن منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ امریکی حکام کاکہنا ہے کہ امریکا نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کوشنر اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی گرین بیلٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کے موقع پر امن منصوبے کا بھی اعلان کریں تاہم امریکا نے اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیےÂ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زاید، امیر قطر تمیم بن حمد، مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے اس حوالے سے بات چیت کی تھی۔
اسی ویب سائیٹ نے 27 اپریل کو امریکا کے مجوزہ امن پلان کے بعض اہم نکات کا انکشاف کیا تھا۔ عبرانی میڈیا کے مطابق امریکا کے امن منصوبے کو خلیجی عرب ممالک نے عملا تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم اس کی نمائشی مخالفت کی جائے گی۔ عرب ممالک منصوبے کے مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز کریں گے اور متنازع امور کو فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات پر چھوڑ دیں گے۔
امریکی انتظامیہ نے مصر اور خلیجی ممالک سے مسلسل رابطے برقرار رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی سے مختلف مؤقف رکھنے والے بیرون ملک مقیم فلسطینی رہنماؤں سے بھی رابطے جاری ہیں تاکہ انہیں امریکا کے امن منصوبے پر قائل اور قانع کیا جاسکے۔ بیرون ملک فلسطینی رہنماؤں میں سے جن کے ساتھ رابطے ہوئے ہیں ان میں تحریک فتح کے مںحرف رہنما محمد دحلان اور فلسطینی اپوزیشن کی قوتیں شامل ہیں۔ اسرائیل نے یہ شرط عائد کی ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کے ساتھ ہی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنا بھی شروع کردیں۔
امریکا کے مجوزہ امن منصوبے میں غزہ کی پٹی اور غرب اردن کا نصف علاقہ شامل ہوگا مگر فلسطینیوں کو اس میں بھی محدود اختیارات دیے جائیں گے۔