الجزیرہ ریسرچ اینڈ اسٹڈی سینٹر کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں خالد مشعل نے کہا کہ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور عرب بہاریہ نے حماس کو بھی متاثر کیا ہے۔ حماس ان انقلابات سے متاثر ہوئی اور حماس سے انقلابی تحریکوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ 60 سالہ خالد مشعل سنہ 1996ء سے حماس کے سیاسی شعبے میں سرگرم ہیں۔ انہیں سنہ 2012ء میں جماعت کے سیاسی شعبے کا دوبارہ سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
انقلابات کے اثرات
الجزیرہ فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ حماس عرب بہاریہ سے متاثر ہوئی، حماس نے بھی عرب بہار پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سنہ2006ء میں حماس کی فلسطین کے پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی عرب بہاریہ کا نقطہ آغاز ہے مگر بعد میں عرب ملکوں میں شروع ہونے والی تبدیلیوں کے منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔
الجزیرہ فورم میں بات کرتے ہوئے خالد مشعل نے عرب بہاریہ کے حماس، فلسطین کی تحریک آزادی اور خطے کے سیاسی حالات پر اثرات پربھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے ماقبل عرب بہاریہ کے دور اور عرب بہار کے عرصے کے دوران ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے فلسطینی تحریک مزاحمت پر اثرات پر بات کی۔ خالد مشعل کا کہنا ہے کہ ترکی اور قطر رکاوٹ اور اعتدال کے دور واضح محور ہیں۔ حماس ان دونوں محور میں سے کسی ایک تک خود کو محدود نہیں رکھ سکتی۔ حماس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ ہم فلسطین کو صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ یہ پوری مسلم امہ کا اجتماعی مسئلہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ عرب بہاریہ کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ اس نے فلسطینیوں کی تحریک آزادی کو ایک نیا رنگ دیا۔ فلسطینیوں کی مزاحمت میں نیا خون دوڑایا اور سیاسی میدان میں بھی اس کے فوائد دیکھنے کو ملے۔ سنہ 2012ء میں اسرائیل کا غزہ کی پٹی پر حملہ فلسطینی تحریک مزاحمت کا توڑ کرنے کا ایک حربہ تھا۔ اس وقت مصر، ترکی اور قطر نے مزاحمت کاروں کی شرائط پر جنگ بندی کی تھی۔ اس جنگ میں فلسطینی تحریک مزاحمت پر نہیں بلکہ قابض صہیونی ریاست پر دباؤ ڈالا گیا۔
اینٹی انقلاب
عرب بہاریہ کے منفی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ عرب بہاریہ اور انقلابات کے منفی اثرات بھی سامنے آئے۔ انقلاب کے رد عمل میں اینٹی انقلاب کے مظاہر بھی دیکھنے کو ملے جن کے خطرناک نتائج سامنے آئے۔ سیاسی رسا کشی بے گناہ لوگوں کے قتل عام کا موجب بنی، فرقہ واریت عام ہوئی، جمہوریت کو کچلا گیا اور انتہا پسندی نے ڈیرے ڈالے۔ علاقائی اقوام کو انتہا پسندی کے خلاف نمٹنے کے لیے سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس نے خطے کے ممالک کے اندر جاری تحریکوں کی حمایت اور مخالفت میں بیرونی مداخلت کی راہ ہموار کی۔ باہر سے آنے والے اپنی اپنی اسکیمیں اور منصوبے لے کرآئے اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کی باتیں کی جانیں لگیں۔
اینٹی انقلاب کے مظاہر کے سامنے آنے کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو سکون پہنچا جب کہ مسئلہ فلسطین پر اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ قضیہ فلسطین کمزور ہوا۔ فلسطین میں ایک نئی لیڈر شپ کے لیے کوششیں شروع ہوئیں تاکہ فلسطینیوں کے حقوق کا سودا کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ نئے طریقوں سے ساز باز کیا جاسکے۔ فلسطین میں انتخابات کاعمل التوا کا شکار ہوا۔
اسلام پسندوں کی غلطی اور حماس
خالد مشعل نے الجزیرہ اسٹڈی سینٹر کے فورم پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عرب بہاریہ حقیقی معنوں میں اسلام پسندوں کے لیے ایک آزمائش ثابت ہوا ہے۔ جمہوریت کے ساتھ اسلام پسندوں کی گہری وابستگی کے باوجود مخالفین نے انہیں سیاسی طور پردیوار سے لگانے کی پالیسی اپنائی۔ انہیں تسلیم کرنے سے انکار کیا اور عددی اکثریت ہونے کے باوجود انہیں سیاسی شراکت سے دور رکھنے کی پالیسی اپنائی گئی۔
خالد مشعل نے کہا کہ اسلام پسندوں سے دو غلطیاں ہوئیں۔ پہلی یہ عرب بہاریہ کے حوالے سے وہ درست اندازہ لگانے اورمقامی وعلاقائی سطح پر متاثرہ قوتوں کے طرز عمل کو سمجھنے میں ناکام رہے۔
یہ غلطی تجربے کی کمی اور درست معلومات کی عدم موجودگی کا نتیجہ تھی۔ دوسرے فریق نے اسلام پسندوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا مگرانہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسلام پسندوں سے دوسری غلطی یہ سرزد ہوئی کہ وہ ملک کی دوسری سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر شراکت کے اصول پرعمل درآمد نہ کرسکے۔ یہ درست ہے کہ ووٹ کی اکثریت کسی سیاسی طاقت کی کامیابی کا اہم ذریعہ ہے مگر تنہا کوئی بھی قوت فیصلہ سازی اور اداروں کی مضبوطی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ اسے لا محالہ دوسری قوتوں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے۔
حماس کی غلطی کا اعتراف
خالد مشعل نے اعتراف کیا کہ ان کی جماعت حماس بھی ماضی میں بعض پالیسیوں میں غلطی کر چکی ہے مگر حماس نے جلد ہی غلطیوں کی اصلاح کی۔ انہوں نے کہا کہ دمشق میں قیام کے دوران ایک بار تحریک فتح کے ایک سرکردہ رہنما سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ ہم نے یہ گمان کیا تھا کہ تحریک فتح کا دور گذر چکا ہے اور حماس اب فلسطین کی متبادل قیادت ہے۔ مگر ہم نے یہ گمان کرکے غلطی کی۔ اسی طرح تحریک فتح نے حماس کے ساتھ ڈیلنگ میں غلطی کی جب اس نے حماس کے ساتھ سیاسی شراکت کے بجائے جماعت کے لیے صرف کوٹہ سسٹم منظور کیا۔
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت سی غلطیاں کیں۔ مگر ہم جلد ہی غلطیوں کی اصلاح کرتے چلے گئے جس کے نتیجے میں حماس نے کامیابیاں حاصل کیں۔ غزہ کی پٹی کے مسلسل محاصرے اور جنگوں کے باوجود فلسطینی عوام کو ریلیف فراہم کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس نے غلطیوں سے سبق سیکھا اور وہ کامیاب رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب حماس سیاسی شراکت کے اصول کی قائل ہے اور متبادل قوت کا تصور ذہن سے نکال دیا گیا ہے۔ آزاد اور شفاف انتخابات کے بعد قومی مفاہمت کے اصول کے تحت سیاسی شراکت سے بہتر اور کوئی فارمولہ قابل عمل نہیں۔
