یورپی یونین کی جنرل کورٹ نے بدھ کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ”سنہ 2001ء میں حماس کو دہشت گرد تنظیموں میں شامل کرنے کا اقدام ٹھوس عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ نتیجہ پریس اور انٹرنیٹ سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر اخذ کیا گیا تھا”۔
لکسمبرگ میں قائم اس عدالت نے قرار دیا ہے کہ حماس کا نام خارج کرنے کا فیصلہ فنی بنیادوں پر کیا گیا ہے اور اس کا حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے معاملے سے کوئی معروضی تعلق نہیں ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق اب حماس کے منجمد اثاثے بھی عارضی طور پر تین ماہ کے لیے بحال کر دیے جائیں گے۔
یادرہے کہ حماس کے عسکری ونگ کو یورپی یونین نے دسمبر 2001ء میں بلیک لسٹ قرار دے دیا تھا۔ تنظیم نے یہ فہرست 11ستمبر 2001ء کو امریکا پر دہشت گردی کے حملوں کے بعد وضع کی تھی۔ اس کے دو سال کے بعد 2003ء میں یورپی یونین نے حماس کے سیاسی شعبے کو بھی بلیک لسٹ قرار دے دیا تھا۔
یورپی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حماس کو دہشت گرد قرار دینے کا اقدام مجاز حکام کی تحقیقات پر مبنی ہونا چاہیے اور محض اخباری اور انٹرنیٹ کی رپورٹس پر تنظیم کو دہشت گرد نہیں قرار دیا جانا چاہیے۔ حماس کی وکیل لی لین گلاک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
درایں اثناء حماس نے یورپی عدالت کے فیصلے کو سراہا ہے اور اس کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ غزہ میں حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ” یہ فلسطینی مسئلے اور عوام کے حقوق کی جیت ہے۔ہم اس مثبت فیصلے پر یورپی عدالت کے شکرگزار ہیں۔اس کے بعد اب فلسطینی عوام پر جبر وتشدد کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی سطح پر اقدامات کیے جانے چاہئیں”۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین