مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق خالد مشعل نے ان خیالات کا اظہار بیروت میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے صدر محمود عباس کی جانب سے حماس پر بےجا الزام تراشی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ الزام تراشی کی سیاست ہمارے مشترکہ عظیم مقصد کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ محمود عباس قومی کاز کو فروعی اختلافات کے نتیجے میں نقصان نہ پہنچائیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے قاہرہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حماس پر کڑی تنقید کی تھی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ غزہ کی پٹی میںحماس کی انتطامیہ مخلوط قومی حکومت کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے اپنی پالیسی نہ بدلی تو قومی حکومت میں حماس کی شراکت داری ختم ہو سکتی ہے۔
عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ: "میں پہلے اپنے آپ کو اور پھر پوری فلسطینی قیادت سے کہوں گا کہ وہ فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الزام تراشی کی سیاست سے باز آئیں اور اس مشترکہ مقصد کے لیے جدو جہد کریں جس کے نتیجے میں فلسطینی قوم کو ایک غاصب ریاست سے آزادی دلوائی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام پچھلے 8 سال تک منقسم رہے ہیں۔ حماس نے انتشار اور بے اتفاقی کا باب بند کر دیا ہے۔ قومی مفاہمت کی جن شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ان پر بھی عمل درآمد شروع کیا جائے۔ فلسطینی قیادت اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے۔ مشترکہ اداروں کی تشکیل دی جائے اور متفقہ فیصلے صادر کیے جائیں۔
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ : "فلسطینی قوم کے لیے جنگ سے تباہ حال غزہ کی پٹی کی تعمیر نو ایک بڑا چیلنج ہے۔ غزہ جنگ کے بعد فلسطینی تنظیمیں اپنے الگ دفتر کھول کر بیٹھ گئیں اور الزام تراشی کی سیاست چمکنے لگی تو غزہ کی پٹی کی تعمیر نو مشکل ہو جائے گی۔
فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان امن مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ فلسطین صرف مسلح تحریک کے نتیجے میں آزاد ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا۔اسرائیل گٹھ جوڑ آزادی فلسطین کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے میں صہیونی دشمن سے مذاکرات کے بجائے عوامی بیداری کی ایک بڑی تحریک چلانے پر زور دوں گا۔
اس عوامی بیداری کی تحریک کے ذریعے عالمی برادری سے اسرائیلی قبضہ ختم کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ فلسطینی قوم نے اسرائیل سے مذاکرات کی طویل اور بے ثمر مشق دیکھ لی ہے۔ اس کے بعد مزید کسی ایسے تجربے کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔