اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے واضح کیا ہے کہ ملک چھوڑ دوسرے ممالک میں آباد ہونے اور فلسطین سے عرب شہریوں کی بیرون ملک آباد ہونے کی افواہیں فلسطین دشمنوں کیی جانب سے اڑائی گئی ہیں۔
اگر کوئی فلسطینی ملک سے ھجرت کر رہا ہے تو وہ سنگین غلطی کا مرتکب ہے۔ پوری دنیا میں پھیلے فلسطینیوں کو وطن واپس لوٹنا چاہیے، یہاں سے بجرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
\
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے پارلیمانی لیڈر اور جماعت کے ترجمان ڈاکٹر صلاح الدین بردویل نے غزہ کی پٹی میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اندرون اور بیرون ملک کچھ ایسے سازشی لوگ موجود ہیں جو فلسطینیوں کو ورغلا کر ان کے اپنے وطن، گھربار اور مال و منال سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر فلسطینی قوم کے کھلے دشمن ہیں جو فلسطین میں صہیونیوں کا تسلط مضبو بنانے کے لیے فلسطینی آبادی کو ھجرت پر مجبور کر رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں حماس رہنما نے کہا کہ حال ہی میں مالٹا کے سمندر میں اٹلی جاتے ہوئے ایک کشتی کے حادثے کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔ فلسطین دشمن عناصر نے فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے مصر، وہاں سے سمندر کے راستے لیبیا اور وہاں سے آگے یونان تک لے جانے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے اس حادثے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ رواں ماہ کے اوائل میں غزہ کی پٹی سے سیکڑوں فلسطینیوں کو رفح گذرگاہ کے راستے مصر لے جایا گیا، جہاں انہیں انسانی اسملگروں کے حوالے کر دیا گیا، جو کئی دوسرے ملکوں کے مسافروں کو لے کر اٹلی کی جانب روانہ ہوئے۔ اس دوران انہیں لیبیا میں خشکی کے راستے بھی چلایا گیا اور آخر کار ان کی کشتی کو دانستہ طور پر ٹکرا دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں کشتی میں سوار فلسطینی اور دوسرے غیرملکی سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔
صلاح الدین برودیل نے انکشاف کیا کہ جن انسانی اسمگلروں کو حراست میں لیا گیا اورانہوں نے مسافروں کو جعلی پاسپورٹ دلوائے تھے اور ان کے قبضے سے ایسے دسیوں پاسپورٹ برآمد بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والے بیشتر فلسطینی غزہ کی پٹی کے علاقے خان یونس سے تعلق رکھتے تھے۔
خیال رہے کہ کشتی کا حادثہ حال ہی میں اٹلی کے کھلے سمندر میں پیش آیا تھا۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ حادثہ کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی اسملگروں کی کارستانی تھی جو کشتی میں سوار مسافروں کو کھلے سمندر میں لے جانے کے بعد چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار کرنا چاہتے تھے مگر مسافروں نے ایسا کرنے سے جب انکار کیا تو ان کی کشی کو ایک دوسرے جہاز سے ٹکرا دیا گیا جس کے نتیجے میں اس پر سوار 700 سے زائد افراد ڈوب گئے تھے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین