مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق صدر المرزوقی سے ملاقات کے بعد قرطاج محل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ انہوں نے صدر المرزوقی سے غزہ کی پٹی اور جنگ سے متاثرہ اور بے گھر شہریوں کو جلد از جلد ٹھکانہ فراہم کرنے پر تبادلہ خیال کیا اور ان سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ تیونسی صدر نے نہ صرف غزہ کی تعمیر نو میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا بلکہ انہوں نے صہیونی ریاست کے خلاف عالمی عدالتوں میں جنگی جرائم کے مقدمات کے قیام میں بھی اپنی قانونی اور اخلاقی معاونت کا یقین دلایا ہے۔
اس موقع پر خالد مشعل نے اعتراف کیا کہ فلسطین کی سیاسی قیادت میں اختلافات موجود ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ حماس فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کی کسی بھی غیرملکی کوشش کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی وحدت ہماری اولین ترجیح ہے اور اس میں کوئی سودے بازی نہیں کی جائے گی۔ غزہ کی تعمیر نوکے لیے قوم کا متحد ہونا ناگزیر ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا تیونسی حکومت فلسطینی جماعتوں حماس اور الفتح میں اختلافات ختم کرانے کی کوشش کررہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک ایسی کوئی تجویز زیرغور نہیں آئی ہے۔
حکومت غزہ میں بحالی کی ذمہ دار
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ جنگ سے تباہ حال غزہ کی پٹی کے شہریوں کی بحالی ہمارا مشترکہ چیلنج ہے اور یہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کی قومی حکومت کی بھی یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ غزہ کی پٹی میں تعمیر نو کے لیے مغربی کنارے کی جانب سے کسی کی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قطر میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات کے دوران بھی ان پر یہ واضح کردیا تھا کہ مغربی کنارے کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو غزہ کے مصیبت زدہ عوام کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔
حماس رہ نما نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں حکومتی وزراء کے کاموں میں کسی قسم کا خلل پیدا نہیں کیا جا رہا ہے۔ بعض ذرائع ابلاغ اپنے مخصوص ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے الزام عائد کررہے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں حماس حکومتی معاملات میں دخل اندازی کررہی ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حماس بھی قومی حکومت کا حصہ ہے۔ جب حکومت غائب ہوگی تو حماس کے کارکنوں کو قوم کی خدمت کرنا ہوگی۔
تحریک الفتح کی جانب سے الزامات تراشی کی مذمت کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ بلا جواز الزام تراشی سے معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ فتح ذرائع ابلاغ کے ذریعے بات کرنے کے بجائے حماس کی قیادت سے براہ راست ملاقات کرے۔