مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے اپنے ایک بیان میں صدر بشارالاسد کی جانب سے حماس کے سیاسی شعبے کے قاید خالد مشعل اور جماعت کی صف اول کی قیادت پر شام نکل جانے پر تنقید کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ حماس نے شام اس لیے چھوڑا تاکہ جماعت پر کسی ایک فریق کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت یا شامی رجیم کے خلاف باغیوں کی حمایت کا الزام نہ لگ سکے۔ ورنہ حماس اول روز ہی سے شام کے بحران کے منصفانہ اور غیر جانب دارانہ حل کی خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں شامی اپوزیشن کی اہم شخصیات اور صدر بشارالاسد کے مقرب ساتھیوں کے کہنے پر خالد مشعل نے مفاہمت کرانے کی کوشش کی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکی جس کے بعد حماس کی قیادت نے شام سے اپنے دفاتر دوسرے ممالک منتقل کردیے تھے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز شام کے صدر بشارالاسد نے ایک فلسطینی وفد سے ملاقات کے دوران حماس کی قیادت کے شام سے نکل جانے پر جماعت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام عاید کیا کہ حماس باغیوں کی طرف داری کررہی ہے۔
صدر بشارالاسد کے ان الزامات کے جواب میں حماس رہ نما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق ے کہا کہ انہیں صدر اسد کی جانب سے نامعقول گفتگو سن کردکھ ہوا۔ بشارالاسد نے خالد مشعل کے بارے میں جو انداز گفتگو اختیار کیا ہے وہ قطعا کسی معتبر رہ نما کو زیب نہیں دیتا ہے۔ شامی حکومت کو حماس کی پالیسی کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ حماس شام کے بحران کے پہلے روز ہی سے غیر جانب دارانہ حکمت عملی پر قائم ہے۔
ابو مرزوق نے کہا کہ یہ وقت الزام تراشی کا نہیں بلکہ افہام وتفہیم اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے کو قریب کرتے ہوئے بحران کے حل کا کوئی درمیانہ راستہ تلاش کرنے کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خالد مشعل کے شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ ذاتی طور پر نہایت دوستانہ تعلقات قائم رہے ہیں۔ بشارالاسد اچھی طرح جانتے ہیں کہ خالد مشعل نے شام کیوں چھوڑا ہے۔ شام میں اخوان المسلمون کی قیادت کی طرف سے بھی یہ الزام عاید کیا گیا کہ حماس کی قیادت شامی حکومت کی طرف داری کررہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس نے شام کے بحران کے حل کے لیے غیر جانب دارانہ پالیسی اپنائی۔
خیال رہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہونے کے بعد وہاں پر موجود حماس کی قیادت نے اپنے بیرون ملک دفاتر خلیجی ریاست قطر منتقل کردیے تھے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین