،
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق رپورٹ میں غزہ میں حماس کے نو منتخب صدر یحییٰ السنوار کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یحییٰ السنوار فلسطین میں سیکیورٹی اور سیاسی دونوں محاذوں پر معروف و مالوف شخصیت چلے آ رہے ہیں۔
حال ہی میں جب غزہ کی پٹی میں حماس کی نئی قیادت کا چناؤ عمل میں لایا گیا تو یحییٰ السنوار کو غزہ میں حماس کا قائد (صدر) چنا گیا۔ اس انتخاب نے صہیونی سیاسی اور ابلاغی حلقوں میں جیسے آگ لگا دی۔ انہیں غزہ میں حماس کےجانشین کے طور پرمنتخب کیے جانے پر اسرائیلی میڈیا چراغ پا ہوا اور ان کا نام اور تصویر بار بار بریکنگ نیوز کی شکل میں ٹی وی چینلوں پرایسے چلائی گئی جیسے کوئی غیرمعمولی واقعہ رونما ہوگیا ہے اور اسرائیلی Â ریاست کی سلامتی داؤ پر لگ چکی ہے۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’معاریف‘ کی رپورٹ کے مطابق Â یحییٰ السنوار کے غزہ میں حماس کی زمام کار سنھبالنے پر اسرائیلی سیکیورٹی حلقے مشوش ہیں۔ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں حماس کی قیادت کی تبدیلی کے بعد یحییٰ السنوار کے غیراعلانیہ عزائم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ صہیونیوں کا کہنا ہے کہ السنوار کےانتخاب کے بعد غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کے امور کو نئے انداز میں ڈیل کرنا پڑ سکتا ہے۔
ابتدائی زندگی
حماس کے غزہ میں نومنتخب صدر یحییٰ السنوار سنہ 1962ء کو غزہ کے جنوبی شہرخان یونس میں اسی شہر کے نام سے قائم پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ مگر ان کا آبائی تعلق جنوبی فلسطین کے تاریخی شہر المجدل سے ہے۔ ان کے والدین سنہ 1948ء میں ارض فلسطین پر صہیونی ریاست کے قیام کے وقت ان کے آبائی شہر سے جلا وطن کردیے گئے تھے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم غزہ کی پٹی میں خان یونس کے اسکولوں میں حاصل کی اور میٹرک خان یونس کے بوائز میٹرک ہائی اسکول سے کی جس کے بعد اسلامی یونیورسٹی غزہ میں داخلہ لیا عربی زبان وادب میں گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔
یونیورسٹی میں Â دوران تعلیم انہوں نے حماس کے طلباء ونگ ’اسلامک بلاک‘ کی قیادت بھی کی اور پانچ سال تک غزہ میں طلباء کونسل کے سربراہ رہے۔ دوران طالب علمی انہوں نے فنی اور اسپورٹس کمیٹیوں کی بھی قیادت کی، طلباء کونسل کے نائب صدر، پھر صدر اور اس کے بعد دوبارہ نائب صدر کی ذمہ داریاں ادا کیں۔
تعلیم سے فراغت کے بعد حماس کے سیکیورٹی ونگ ’’مجد‘‘ کی بنیاد رکھی اور سنہ 1985ء میں اسرائیل کے خلاف مزاحمتی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ مجد تنظیم اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کرنے والوں کی نشاندہی کرکےان کے خلاف بھی کارروائی کرتا۔
قید وبند کی صعوبتیں
یحییٰ السنوار کو پہلی بار اسرائیلی فوج نے سنہ 1982ء میں حراست میں لیا اور چار ماہ تک انتظامی قید میں منتقل کیا۔ سنہ 1985ء میں انہیں دوبارہ حراست میں لیا گیا اور حماس کا عسکری ونگ ’مجد‘ قائم کرنے کے الزام میں آٹھ ماہ قید رہے۔ سنہ 1988ء میں دوبارہ حراست میں لیا گیا اور ان پر چار بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد سنہ 2011ء میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے میں انہیں رہا کیا گیا۔
رہائی اور جماعت کی قیادت
یحییٰ السنوار کو ’معاہدہ احرار‘ کے تحت 18 اکتوبر2011ء کو رہا کیا گیا۔ ان کی اب تک کی آخری اسیری کا عرصہ 24 سال پر محیط ہے جب کہ مجموعی طور پر وہ 25 سال پابند سلاسل رہ چکے ہیں۔
جولائی 2015ء کو حماس نے انہیں اسیران کے امور کا انچارج مقرر کیا اور غزہ کی پٹی میں حماس کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کی رہائی اور ان کے بدلے فلسطینی اسیران کا ایشو ان کے سپرد ہوا۔
یحییٰ السنوار نہایت اہمیت کے حامل کمانڈر ہیں، جو بہت کم منظر عام پرآتے ہیں۔
اسرائیل کا دشمن
اسرائیلی صحافی اور فلسطینی امور کے تجزیہ نگار آفی ساخاروف کا کہنا ہے کہ السنوار غزہ کی پٹی میں حماس کا اولین دشمن ہوسکتا ہے۔ حماس نے السنوار کو غزہ میں جماعت کا اہم ترین عہدہ سونپ کر انہیں ایک بار پھر اسرائیل کی نظروں میں لا کھڑا کیا۔ اسرائیل کی نظر میں یحییٰ السنوار آج اگرغزہ میں حماس کے صدر ہیں تو کل کو جماعت کے سیاسی شعبے کے سربراہ بھی بن سکتے ہیں۔
سخاروف کے مطابق یحییٰ ایک طاقت ور اور کرشماتی شخصیت ہیں۔ ان کی بہادری، جرات مندی Â اور اسرائیل کی مخالفت کے باعث حماس کا ’شاہین‘ قرار دیا جاتا ہے۔ السنوار غزہ میں حماس کی عسکری اور سیاسی ضروریات کو بہتر جانتے ہیں اور وہ جماعت کے بنیادی ڈھانچے سے بھی بہ خوبی واقف ہیں۔