مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق وزیراعظم ھنیہ نے ان خیالات کا اظہار غزہ کی پٹی میں آٹھ روز جنگ میں شہید ہونے والوں کی یاد میں ایک تقریب سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جس دور سے گذر رہے ہیں یہ دور تحریک آزادی فلسطین کے دو بنیادی مراحل کے درمیان ایک پڑاؤ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پہلے مرحلے میں فلسطینی دشمن کے خلاف تیاری اور ابتدائی پیش رفت سے گذرے اور آخری مرحلہ اپنے دفاع اور سرزمین اور مقدسات کی آزادی کے لیے تمام تروسائل کا استعمال ہے۔ ہم اس دوسرے اور آخری مرحلے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ غزہ کی پٹی کے بعد اب مغربی کنارا بھی دشمن کےخلاف نیا میدان جنگ بننے والا ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ ہماری جدو جہد کا مقصد صرف غزہ، مغربی کنارا یا مقبوضہ بیت المقدس ہی نہیں بلکہ اب ہمارا نعرہ فلسطین کی پوری سرزمین اور پورا وطن ہے۔ اب آئندہ جب بھی طبل جنگ بجے گا وہ کسی ایک فلسطینی شہر میں نہیں ہوگا بلکہ پورا فلسطین بحر متوسط سے دریائے اردن تک کی آزادی کی لہر اٹھے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ فلسطینیوں نے مزاحمت کی گود میں پرورش پائی ہے۔ انقلاب فلسطینی قوم کی گھٹی میں شامل ہے۔ فلسطینی عوام جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار قوم ہے اور یہ بڑے سے بڑے چیلنجزکاخندہ پیشانی سے سامنا کرنی اور دشمن کو سخت سے سخت معرکوں میں شکست دینے کا عزم رکھتی ہے۔
غزہ جنگ کے دوران صہیونی جارحیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ آٹھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کو قتل کرنے کے امریکی اسلحہ کا استعمال کیا۔ ہم جس طرح فلسطینیوں کے خون کے صہیونیوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اسی طرح امریکیوں کوبھی اس کا برابر کا قصور وار قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ امریکا نے صہیونیوں کو فلسطینی بچوں کو قتل کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار فراہم کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ظلم بھی فلسطینیوں پر کیا جاتا ہے، حقوق بھی انہی کے غصب کیے جاتے ہیں اور مزاحمت ترک کرنے کا مطالبہ بھی ہم ہی مظلولوں سے کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم مزاحمت کسی قیمت پرترک نہیں کریں گے۔ فلسطینیوں کی بقاء مسلح مزاحمت میں مضمر ہے۔