انہی میں برطانیہ کے ایک گمنام مصور’’رابرٹ بانکسی‘‘ کے فن پارے بھی شامل ہیں جن میں غزہ کی پٹی میں تباہی اور بربادی کو تصاویری خاکوں کی مدد سے بے نقاب کرنے اور عالمی ضمیرکو جھنجھوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔
رابرٹ بانکسی نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والے مکانات کے ملبے اور ٹوٹی پھوٹی دیواروں پرشہرکی مظلومیت کی تصاویر بنائی ہیں اور بتایا ہے کہ اسرائیلیوں نے کس خون خواری اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 18 ہزار ہنستے بستے گھرانوں کو اجاڑ دیا۔
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایک مکان کی بچ جانے والی چھوٹی سی دیوار پر بلی کی تصویر بنائی گئی ہے جو لوہے کی ایک گیند کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ برطانوی آرٹسٹ نے اپنے خاکوں میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں سڑک سےنہیں بلکہ ایک سرنگ کے ذریعے پہنچا اور اپنے خاکوں میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جب ہم کمزور اور طاقت ور کے درمیان کشمکش دیکھتے ہیں تو ہمیشہ طاقت فریق کی طرف داری کرتے ہیں۔ اس سے اس کی مراد اسرائیل ہے جو نہتے فلسطینیوں کے مقابلے میں طاقت ور ہے اور اس وقت عالمی برادری بھی مظلوم فلسطینیوں کے بجائے صہیونی ریاست کی طرف داری کررہی ہے۔
خیال رہے کہ رابرٹ بانکسی کے دیواروں پر خاکے تو مشہور ہیں مگر وہ خود ایک گمنام سیاسی کارکن ہے جسے آج تک کسی انسانی حقوق کی تنظیم یا کسی عالمی ادارے کی طرف سے اس کے فن کی خدمات کے صلے میں کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ اس سے قبل وہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی تیار کردہ دیوار فاصل کو بھی اپنے فن پاروں کے ذریعے بے نقاب کرچکا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین