غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے اسرائیل کی چیرہ دستیوں کے خلاف اور مہاجرین کی واپسی کے حق میں جاری مارچ کو ایک سال پورا ہوگیا ہے۔اس موقع پر ہفتے کے روز غزہ کی پٹی کے ساتھ اسرائیل کی سرحد ی باڑ کے نزدیک ہزاروں فلسطینی جمع ہوکر اسرائیلی فوج کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور بعض مقامات پر ان کی اسرائیلی فوجیوں سے جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطین کے طبی حکام نے بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست گولیاں چلائی ہیں اور ا شک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں جس سے دو فلسطینی مظاہرین شہید اور تیرہ زخمی ہوگئے ہیں۔
غزہ کی حکمراں حماس نے ہزاروں مظاہرین کو سرحدی باڑ سے دور رکھنے کا وعدہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے اپنے بیسیوں سکیورٹی اہلکار تعینات کیے ہیں جو مظاہرین کو باڑ کی جانب جانے سے روک رہے تھے جبکہ مصری ثالث کار حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی سمجھوتے کو حتمی شکل دینے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
حماس کی قیادت نے فلسطینیوں سے اس سالانہ مظاہرے میں بھرپور انداز میں شرکت کی اپیل کی تھی ۔ آج دوپہر کے بعد لوگ جوق درجوق سرحدی باڑ کی طرف آنا شروع ہوگئے تھے۔ان میں سے دسیوں مظاہرین نے باڑ کے بالکل نزدیک جانے کی کوشش کی اور انھوں نے اسرائیلی فوجیوں کی جانب پتھراؤ کیا ہے۔اس کے جواب میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں اور براہ راست فائرنگ کی ہے۔
غزہ میں وزارتِ صحت نے کہا ہے کہ مختلف مقامات پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے دو فلسطینی نوجوان شہید ہوئے ہیں۔ ان میں ایک کانام محمد سعد بتایا گیا ہے،اس کے سر میں گولی تھی اور اس کی عمر اکیس سال تھی۔ دوسرے فلسطینی شہید کا نام اعظم عمارہ بتایا گیا ہے،اس کی عمر سترہ سال تھی اور اس کے چہرے پر گولی لگی تھی۔
غزہ کی پٹی اور ا سرائیل کے درمیان فلسطینیوں نے احتجاجی مظاہرے 30 مارچ 2018ء کو شروع کیے تھے۔ اس دوران میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 220 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ان میں 41 کم سن بچے بھی شامل ہیں ۔گذشتہ پورے سال کے دوران میں انھوں نے اپنا یہ ہفتہ وار احتجاج جاری رکھا ہے۔ وہ غزہ کے محاصرے کے خاتمے اور اسرائیل کے قیام کے وقت بے گھر کیے گئے فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے لیے مظاہرے کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ کی بیس لاکھ آبادی میں سے دوتہائی مہاجرین ہیں یا ان کی اولاد ہیں۔ انھیں 1948ء میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت ان کے آبائی علاقوں سے زبردستی نکال باہر کیا گیا تھا۔انھیں ان کے آبائی علاقوں میں واپسی کا حق دلانے کے لیے پہلے عام فلسطینیوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے مگر بعد میں حماس نے اس احتجاجی تحریک کو ا پنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور مظاہرین نے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کے خلاف احتجاج شروع کردیا تھا۔