مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل میں ابلاغی اور سیاسی سطح پر فوج کی فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں شکست کی تحقیقات کا مطالبہ تو کئی روز سے مختلف فورمز پر سامنے آ رہا ہے تاہم اب اسرائیلی پارلیمنٹ میں فوج کی شکست کی تحقیقات کی بازت گشت سنائی دے رہی ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک حالیہ اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے حکومت سے استفسار کیا کہ وہ یہ بتائے کہ غزہ کی پٹی میں جس مقصد کے لیے جنگ مسلط کی گئی تھی وہ کس حد تک حاصل کیے جا سکے ہیں۔ چونکہ جنگ مسلط کرنے کا مقصد فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں کو روکنا اور فلسطینی تحریک مزاحمت کی کمر توڑنا تھا۔ سو وہ مقصد تو پورا نہیں ہوا ہے۔ الٹا اسرائیل عالمی سطح پر شرمندگی، فوج کے جانی نقصان اور غیر معمولی مالی اخراجات برداشت کرنا پڑے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی غزہ میں شکست کی تحقیقات کا تازہ مطالبہ ایک سرکردہ عسکری ماہر پروفیسر حزقیل درور کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ مسٹر حزقیل سنہ 2006ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے اور 35 روزہ جنگ کے نتائج کی تحقیقات کے لیے قائم "فینگورڈ” کمیٹی کے رکن رہ چک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ میں فوج نے کون کون سے اہداف حاصل کیے ہیں اور کہاں کہاں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان تمام سوالات کے جوابات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جانا ضروری ہے تاکہ اس کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرنے ساتھ ساتھ غلطیوں کی اصلاح اور عبرت حاصل کی جا سکے۔
مسٹر درور کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج طاقت کے غیرضروری استعمال کے باوجود اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہتی ہے۔ فوج اور حکومت کو پھر وہیں سےسفر شروع کرنا پڑتا ہے جہاں جنگ سےقبل چھوڑا تھا۔ اسرائیلی فوج نے سنہ 2006ء میں لبنان میں حزب اللہ کے خلاف 35 روز تک بمباری جاری رکھی لیکن حزب اللہ کی کمرنہ توڑی جا سکی۔ اسی طرح سنہ 2008.09ء کے دوران غزہ کی پٹی پر 22 روز تک بڑے پیمانے پر فضائی اور زمینی حملے ہوتے رہے لیکن غزہ میں حماس کی حکومت ختم کی جاسکی اور نہ ہی یرغمال بنائے گئے ایک فوجی کو بازیاب کرایا جاسکا۔ بارہ جولائی کے بعد اسرائیلی فوج نے ایک اور ناکام تجربہ کیا ہے۔ جس میں اسرائیلی فوج اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
اسرائیلی میٰڈیا میں نشر ایک بیان میں پروفیسر حزقیل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں سرنگوں اور راکٹوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے لیکن اس وقت کے آنے کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے۔ جب فلسطینی مزاحمت کار سرنگیں کھود رہے تھے تو ان کا تماشا کیوں دیکھا جاتا رہا۔ جب وہ سرنگیں کھود لینے کے بعد اپنے دفاع میں مضبوط ہو گئے تو فوج کو کارروائی کا خیال آیا۔ اس امر کی تحقیقات ضروری ہیں کہ ہم دشمن کو مضبوط ہونے تک انتظار کیوں کرتے ہیں۔