ذرائع کے مطابق ڈاکٹرمحمود الزھار نے حماس کی ویب سائیٹ کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ سنہ 2000 ء میں دوسری تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کے جتنے امکانات تھے آج اس سے کہیں زیادہ اس کے قوی امکانات موجود ہیں۔ اگرچہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی پوری قوت کے ساتھ تحریک انتفاضہ کو روکنے کی کوشش کررہی ہے مگر طاقت کے استعمال سے آزادی تحریکیں دبائی جاسکتی ہیں اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے۔
دفاع قبلہ اول پوری امت کی ذمہ داری ہے
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمود الزھار کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کو تحفظ دلانے کے لیے اسرائیل نے اسلحہ کے انبار لگا رکھے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی بھی یہودی آباد کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہے لیکن یہ تاثر قطعی بے بنیاد ہے کہ عوام کسی تحریک سے غافل ہیں۔ غرب اردن کے عوام کسی بھی وقت تحریک انتفاضہ شروع کرسکتے ہیں کیونکہ وہ ہمہ وقت حالت جنگ میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی تنہا مسجد اقصیٰ کی ذمہ دار نہیں اور نہ تنہا فلسطینی عوام دفاع قبلہ اول کے ذمہ دار ہے۔ قبلہ اول مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلے تمام مسلمانوں کا ہے اور اس کےدفاع کی ذمہ داری بھی پوری مسلم امہ اور عرب اقوام کے کندھوں پر ہے۔ ڈاکٹر الزھار نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے عوام کے کندھوں پر اتنا ہی بوجھ ڈال جائے جتنا کہ وہ برداشت کرسکتے ہیں۔
حماس رہ نما نے فلسطینی عوام پر زور دیا کہ وہ مزاحمت کے طریقوں میں جدت لائیں اور مغربی کنارے اور بیت المقدس سمیت پورے ملک میں صہیونی دشمن کےخلاف تحریک شروع کریں۔ انہوں نے کہا کہ غرب اردن اور بیت المقدس کے عوام نے نہتے ہونے کے باوجود دشمن کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں۔
انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ صدر عباس اپنے ماتحت سیکیورٹی اداروں کو یہودیوں کے دفاع اور تحریک انتفاضہ کو دبانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔