غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) واپسی کے حق کی حمایت میں دوسرے جمعے کو جاری پُرامن مظاہروں کے دوران صیہونی فوجیوں کی جانب سے نامہ نگاروں اور صحافیوں کو جارحیت کا نشانہ بنائے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اور صحافیوں اور پریس حلقوں نے عالمی اداروں کی جانب سے قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق غزہ میں فلسطین کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ تیس سالہ فلسطینی نامہ نگار جمعے کی شام ایسی حالت میں کہ وہ واپسی کے حق کی حمایت میں کئے جانے والے مارچ کی رپورٹنگ کر رہا تھا اور پریس جیکٹ بھی پہنے ہوئے تھا، غاصب صیہونی فوجیوں کی فائرنگ کا نشانہ بنا اور شہید ہو گیا۔31 سالہ شہید صحافی یاسر مرتضیٰ غزہ میں قائم عین میڈیا ایجنسی کے لیے فوٹو گرافر کے طور پر کام کررہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوگئے تھے اور انھیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ہفتے کے روز چل بسے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جمعے کے روز کے مارچ میں رپورٹنگ کرنے والے دس نامہ نگار صیہونی فوجیوں کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
صحافیوں کی عالمی یونین نے صحافیوں اور نامہ نگاروں کو جارحیت کا نشانہ بنائے جانے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے اور اسے فوری طور پر فلسطین روانہ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ صحافیوں کی حامی کمیٹی نے عرب صحافیوں کی یونین سے درخواست کی ہے کہ وہ عرب اور بین الاقوامی سنڈیکٹس کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینی صحافیوں اور نامہ نگاروں کے خلاف صیہونی جارحیت بند کرانے کے لئے صیہونی حکومت پر دباؤ ڈالے۔
دریں اثنا فلسطینی نامہ نگاروں کے ایک گروپ نے ایک بیان میں تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ پُرامن مظاہرین پر جارحیت اور نامہ نگاروں پر فائرنگ سے صیہونی غاصبوں کے ناپاک چہرے کی پردہ پوشی یا اصلاح نہیں کی جاسکتی۔
فلسطینی نامہ نگاروں کی انجمن سمیت مختلف صحافی گروہوں منجملہ الاقصی مرکز اور اطلاع رسانی کے سرکاری دفتر نے بھی فلسطینی نامہ نگاروں اور صحافیوں پر حملہ کرنے سے متعلق صیہونی فوجیوں کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی حمایت اور صیہونی غاصبوں کے مقابلے میں فلسطینی قوم کی استقامت کی رپورٹنگ کرنے کے بارے میں اپنے فریضے کی انجام دہی کے سلسلے میں اپنے عزم و ارادے پر تاکید کی۔
وطن واپسی کے حق کی حمایت میں فلسطینیوں کے جاری پُرامن مارچ پر صیہونی فوجیوں کی جارحیت و فائرنگ میں اب تک اکتّیس فلسطینی شہید اور تقریبا تین ہزار دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔