اسرائیل فلسطین تنازع: امید اور امن کے درمیان وسیع خلیج جسے کم کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی منصوبہ نہیں

فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو ایک ساتھ رہنے یا الگ الگ رہنے سے متعلق مستقبل کے بارے میں بات کرنے کی بامعنی کوشش کیے ہوئے 10 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

0
SHARES
0
VIEWS

 (روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر بڑھ رہی ہے اور ایسے میں امن اور دو ریاستی حل کی امیدیں ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت دور ہیں۔

بیت المقدس تمام الہامی مذاہب کے پیروکاروں کے لیے ایک مقدس شہر ہے۔ یہاں کا ماحول اس وقت سب سے زیادہ متحرک اور پُررونق ہوتا ہے جب تمام مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی تعطیلات مناتے ہیں۔ خاص طور پر پرانے اندرون شہر میں جہاں مسیحی، یہودی اور اسلامی مقدس مقامات ایک دوسرے سے چند منٹ کے فاصلے پر ہیں۔

یہاں مذہب ایک طاقت اور اہمیت کا حامل ہے جس کے بارے میں جتنی بات کی جائے کم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اہمیت ایمان سے کہیں زیادہ ہے۔

بیت المقدس میں اس کا تعلق فلسطینی اور اسرائیلی قوم پرستی سے ہے۔ مذہب، سیاست اور شناخت کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے۔ دونوں قومیتوں کے حریف یروشلم کے تقدس کی تعظیم کرتے ہیں اور اسے اپنے دارالحکومت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

رواں برس رمضان، ایسٹر اور پاس اوور (یہودیوں کی عید) ایک ہی ماہ میں آئے ہیں۔ ان تینوں مذاہب کے مقدس تہوار مایوسی اور بڑھتے خطرے کے باوجود ایک ساتھ منائے گئے۔

دو سال قبل رمضان کے دوران فلسطینیوں پر اسرائیلی پولیس کی جانب سے سخت کارروائی اور تشدد کے واقعات اسرائیلیوں اور حماس کے درمیان غزہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں کشیدگی اور مہلک جنگ کی ایک چھوٹی سے چنگاری ثابت ہوئی تھی۔ حماس فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک کی تنظیم کا نام ہے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ اس مہینے میں دوبارہ ایسا ہو سکتا ہے جب اسرائیلی سکیورٹی فورسز مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئیں، جس کے بارے میں مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہاں سے پیغمبر اسلام سفرِ معراج پر گئے تھے۔ پولیس نے ان فلسطینیوں کو نکالنے کے لیے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جنھوں نے خود کو عبادت گاہ کے ہال میں بند کر رکھا تھا۔

مسلح اسرائیلی پولیس کی جانب سے فلسطینیوں کو زدوکوب کرنے کی ویڈیوز مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والی عرب ریاستوں میں غم و غصے کا باعث بنیں۔

لبنان سے اسرائیل پر ممکنہ طور پر فلسطینی گروہوں کی طرف سے متعدد راکٹ داغے گئے۔ یہ 2006 میں لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے اسرائیل کے خلاف جنگ کے بعد سے بھاری ہتھیاروں سے لیس سرحد پر سب سے خطرناک لمحہ تھا۔

اگرچہ مسجد اقصیٰ پر اس حملے کے بعد سے تمام فریق ایک اور مہلک تصادم کے دہانے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں، لیکن وہ ان کی اس مقام تک پہنچنے کی وجوہات اب بھی موجود ہیں۔

فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو ایک ساتھ رہنے یا الگ الگ رہنے سے متعلق مستقبل کے بارے میں بات کرنے کی بامعنی کوشش کیے ہوئے 10 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

طویل عرصے تک کشیدگی کی نذر ہوئے امن نے اسرائیلی رہنماؤں، خاص طور پر طویل عرصے تک رہنے والے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اس تنازعے پر قابو پایا جا سکتا ہے مگر حل نہیں کیا جا سکتا۔

گذشتہ غزہ جنگ کے بعد سے دو سال کی بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تشدد نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حل ایک سراب ہے۔

دیگر فریقین کی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور یورپی یونین اب بھی اپنے اس یقین کو دہراتے ہیں کہ امن کا واحد موقع ’دو ریاستی حل‘ ہے۔ ایک نسل قبل یہ دریائے اردن اور بحیرۂ روم کے درمیان واقع زمین کے کنٹرول کے لیے یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایک صدی سے زائد تنازعے کو ختم کرنے کا ایک حقیقت پسندانہ طریقہ لگتا تھا۔

دو ریاستی حل کا نظریہ یہ تھا کہ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطین کا قیام دونوں لوگوں کے لیے پرامن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا راستہ پیدا کرے گا۔

لیکن ’دو ریاستیں‘ اب ایک کھوکھلا نعرہ بن چکا ہے، اس نظریے کے حامی اس حل میں ہاتھ تو بڑھاتے ہیں لیکن اسے حقیقت میں بدلنے کی کوشش ترک کر چکے ہیں۔

میں نے بیت المقدس سے ہیبرون تک ڈرائیو کی تاکہ اس کی کچھ وجوہات خود کو یاد دلاؤں۔

کار میں بیٹھتے ہوئے اور اس سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے، جیسا کہ میں 1990 کی دہائی سے کئی بار کر چکا ہوں، مجھے ایک بار پھر یہ محسوس ہوا کہ اس سرزمین کے مستقبل کے بارے میں بین الاقوامی امنگوں اور یہاں کے رہنے والوں کی حقیقت کے درمیان خلیج کا حجم کتنا بڑا ہے۔

مقبوضہ غرب اردن کو ایک چادر کی طرح برستی موسلادھار بارش کی شکل میں نشانہ بناتے اس غیرموسمی طوفان میں میرا یہ سفر کوئی طے شدہ منصوبہ نہیں تھا۔ سڑک کنارے دھند کی دبیز تہیں بھی اسرائیل کے اس سرزمین پر یہودیوں کو بسانے کے بڑے اور یک نکاتی منصوبے کے سلسلے میں کیے گئے تازہ ترین اقدامات کو چھپانے میں ناکام تھیں، جسے فلسطینی اپنی ریاست کے طور پر چاہتے ہیں۔ میں اگر بیت المقدس کے جنوب کی بجائے شمال یا مشرق کی طرف سفر کرتا تو بھی اسی قسم کے ثبوت دکھائی دیتے۔

ان برسوں کے دوران جب سے میں نے بیت المقدس اور ہیبرون کے درمیان سفر کیا، اس خطے کے دونوں اطراف کی زمین بدل چکی ہے۔

سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں یہ ایک قومی شاہراہ تھی، جہاں کچھ یہودی بستیاں نمایاں طور پر پہاڑیوں سے نیچے آباد دکھائی دیتی تھیں خاص طور پر بیت اللحم کے جنوب میں جو اس سڑک پر بیت المقدس سے نکلتے ہی پہلا فلسطینی قصبہ آتا ہے۔

لیکن اس سڑک کے ساتھ ساتھ زیادہ تر زمین کھیتوں اور کھلے میدانوں پر مشتمل تھی جہاں نسلوں سے فلسطینی کسانوں نے ڈیرے ڈالے تھے اور کاشتکاری کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ سڑک کے کناروں پر چلتے ہوئے گدھوں پر سوار ہو کر کام پر جاتے تھے۔

فلسطینی کسان آج بھی اس سرزمین پر فصلیں اگاتے ہیں، لیکن یہودی بستیوں کی بڑی توسیع سے ان کے کھیتوں کو کم کر کے کاٹ دیا گیا ہے۔

سڑک کو چوڑا اور سیدھا کرنے کے لیے اور اسے دوسری یہودی بستیوں اور بیت المقدس کو ملانے والے بائی پاسز کے ایک بڑھتے ہوئے نیٹ ورک سے جوڑنے کے لیے فلسطینی اراضی کو ضبط کر لیا گیا ہے۔

نئی سڑکوں کی کٹائی پہاڑیوں سے کی گئی ہے۔ اس ہفتے بیت المقدس اور ہبرون کے درمیان سڑک ٹریفک سے جام تھی۔ بہت سی کاروں پر اسرائیلی نمبر پلیٹیں تھیں، جو اس علاقے میں یہودیوں کی آبادی میں بڑے اضافے کی عکاسی کرتی ہیں۔

بارش کے دوران تقریباً ایک درجن اسرائیلی فوجی مکمل جنگی سازو سامان کے ساتھ اپنی جیپوں پر سوار ہو کر مغربی کنارے پر قبضے کے لیے ایک اور فوجی آپریشن کی تیاری کر رہے تھے۔ یہ فوجی آپریشن گذشتہ 56 برسوں سے جاری ہے اور اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

وہ فوجی ایک چھوٹے سے فلسطینی قصبے بیتِ عمار کے داخلی راستے پر واقع اسرائیلی فوج کے واچ ٹاور کے قریب تھے۔ بیتِ عمار ایک چھوٹا فلسطینی قصبہ ہے جس کے باشندوں کا روزگار کے لیے زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔

بیت عمار بھی مغربی کنارے کے بہت سے دوسرے قصبوں اور دیہاتوں کی طرح، یہودی بستیوں اور سڑکوں کے لیے اپنی کافی زمین کھو چکا ہے۔ یہاں قبضے، اور اس کے خلاف مزاحمت کی خواہش نے کئی سالوں میں بار بار تشدد کو جنم دیا ہے۔

دنیا کے بیشتر ملک اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ زمین پر یہودی آبادکاری کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ ان میں شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی سرگرمیاں نسل پرستی کے مترادف ہیں۔

اسرائیل اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ بین الاقوامی قوانین جو کسی ملک کو اپنے زیر قبضہ علاقے میں اپنے لوگوں کو آباد کرنے سے روکتے ہیں، ان علاقوں پر لاگو نہیں ہوتے ہیں۔

اسرائیل کی طرف سے اس علاقے میں کئی دہائیوں سے سڑکوں، مکانات اور یہودی آباد کاروں کے تحفظ کے لیے درکار سکیورٹی کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نے ایک نئی حقیقت کو جنم دیا ہے۔ جس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ اسرائیل 1967 میں مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران قبضہ کی گئی زمین کو زیادہ سے زیادہ اپنے پاس رکھ سکے۔

کچھ اسرائیلی حکومتوں نے دو ریاستی حل کی بات کرتے ہوئے دوسری جانب ان یہودی بستیوں کو وسعت دی۔ موجودہ حکومتی اتحاد کے اصول اس بارے میں زیادہ واضح ہیں۔

وہ اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ بنیامن نیتن یاہو کی قیادت میں ایک بار پھر اسرائیلی حکومت ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قوم پرست دائیں بازو کی حکومت ہے۔

موجودہ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان زمینوں پر آبادکاری کو فروغ اور ترقی دے گی جن پر ’یہودی افراد کا خصوصی اور ناقابل تردید حق ہے۔‘

فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے میں دو ریاستی حل کے حامی خبردار کرتے رہتے ہیں کہ مقبوضہ علاقے پر یہودی بستیوں کی تعمیر اسے ایک ایسی صورتحال میں ڈھال رہی ہے جو زمینی اور سیاسی طور پر ناممکن ہے۔ رواں برس اقوام متحدہ نے 20 فروری کو اس متعلق تازہ ترین بیان دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطین اور اسرائیل تنازعے میں دو ریاستی حل کے لیے ’اپنے غیر متزلزل عزم‘ کا اعادہ کیا اور کہا کہ ’اسرائیلی آبادکاری کی سرگرمیاں 1967 کی خطوط پر مبنی دو ریاستی حل کی عملداری کو خطرناک طور پر متاثر کر رہی ہیں۔‘

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بات چیت کے ناممکن ہونے کی واحد وجہ یہودی بستیوں میں توسیع ہی نہیں ہے۔ امریکہ جس نے ماضی میں دونوں کے درمیان مذاکرات کی سرپرستی کی اس وقت دیگر امور میں مصروف ہے۔ اسے چین کے ساتھ دشمنی اور یوکرین کی جنگ سے بہت زیادہ تشویش لاحق ہے۔

فلسطینی سیاسی قیادت غزہ میں حماس اور مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی میں تقسیم ہے۔ موجودہ حالات میں وہ کسی بھی قسم کا معاہدہ کرنے یا ڈیلیور کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ کیونکہ فلسطینی اتھارٹی بمشکل اپنے محدود اختیارات استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

دوسری جانب اسرائیل اپنے اندرونی سیاسی اختلافات اور ملک میں جمہوریت کی نوعیت سے متعلق بحران کا شکار ہے۔

فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن ہمیشہ کی طرح بہت دور ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔

اس سال تشدد اور اموات میں اضافہ اس بات کی تنبیہ ہے کہ مستقبل میں حالات اس سے بھی بدتر اور سنگین ہوں گے۔ یہاں ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ کس قسم کے خطرات سے دوچار ہے۔ سامنے موجود مہلک مصیبت کو دور کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی حقیقت پسندانہ منصوبہ نہیں ہے۔

بشکریہ : بی بی سی اردو 

تحریک جیرمی براؤن

Next Post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے