غزہ – روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
بنجمن نیتن یاھو نے ایک نیا قانونی منصوبہ منظور کیا ہے، جس کے تحت قابض اسرائیل کے الزامات کے تحت فلسطینی اسیران کو "طوفان الاقصی” اور سات اکتوبر سنہ 2023ء کے حملے میں ملوث ہونے کی بنیاد پر فوجی عدالت میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عبرامی اخبار ” ‘یدیعوت احرونوت” کے مطابق نیتن یاھو نے کنیسٹ کے اراکین سیمحا روتمن اور یولیا مالینوفسکی کی جانب سے پیش کردہ بل کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد ایسے فلسطینی اسیران کے لیے خصوصی قانونی فریم ورک تیار کرنا ہے، جنہیں قابض اسرائیل نے طوفان الاقصی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نیتن یاھو نے یہ فیصلہ کیا کہ مذکورہ اسیران کو قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر کی جانب سے پیش کردہ موت کی سزا کے منصوبے میں شامل نہ کیا جائے، بلکہ ایک علیحدہ قانونی راستہ اپنایا جائے تاکہ اس معاملے کو الگ طور پر نمٹا جا سکے۔
قانونی منصوبے کو آئندہ ہفتے کنیسٹ میں پہلی ریڈنگ کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس میں وہ افراد شامل ہوں گے، جن پر قابض اسرائیل کے الزامات کے مطابق غزہ میں اسیر اسرائیلیوں کے یرغمال بنانے میں شمولیت کا الزام ہے۔
منصوبے کے مطابق مقدمات ایک خصوصی فوجی عدالت میں چلائے جائیں گے، جس کے پاس قابض اسرائیل کی جانب سے لگائے گئے الزامات، جیسے نسل کشی، خودمختاری کی خلاف ورزی، جنگ بھڑکانے، دشمن کی مدد کرنے کے جرائم کی سماعت کے لیے وسیع اختیارات ہوں گے۔
اس قانون کے تحت یہ جرائم انتہائی سنگین قرار پائیں گے اور سزا موت تک پہنچ سکتی ہے، حالانکہ کسی بھی قانون کو قابض اسرائیل میں نافذ العمل ہونے کے لیے کنیسٹ میں تین بار منظور ہونا ضروری ہے۔
اب تک قابض اسرائیل نے اس قانون کے تحت شامل کیے جانے والے فلسطینی اسیران کی تعداد ظاہر نہیں کی، لیکن ‘یدیعوت احرونوت’ کے مطابق، 7 اکتوبر کے حملے میں ملوث اسیران کی تعداد 300 سے زیادہ ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر سنہ 2023ء کو القسام بریگیڈز اور غزہ کی دیگر مزاحمتی جماعتوں نے غزہ کے محاذ کے ساتھ 22 بستیوں اور 11 فوجی اڈوں پر وسیع حملہ کیا، جس میں قابض اسرائیل کے کئی افراد ہلاک اور جنگی قیدی بنائے گئے۔ اس کارروائی کو "طوفان الاقصی” کا نام دیا گیا، جو قابض اسرائیل کی پالیسیوں اور فلسطینی عوام، مقدسات خصوصاً مسجد اقصی پر مظالم کے ردعمل میں انجام دی گئی۔
تب سے قابض اسرائیل امریکہ کی حمایت سے غزہ پر وسیع پیمانے پر حملے کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک لاکھ 71 ہزار زخمی ہوئے، جن میں اکثریت بچے اور خواتین ہیں۔