(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) یورپی یونین کے خارجہ امور و سلامتی پالیسی کے سابق سربراہ جوزپ بوریل نے اعتراف کیا ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی باقاعدہ نسل کشی کر رہی ہے، اور یورپ اس جرم میں براہ راست شریک ہے کیونکہ اس کے آدھے سے زیادہ گولہ بارود یورپ سے آتا ہے۔
اسپین کے شہر یوسٹی میں کارلوس پنجم ایوارڈ وصول کرنے کے بعد اپنی تقریر میں بوریل نے کہا "غزہ پر گرنے والے بموں میں سے نصف یورپی سرزمین سے فراہم کیے جا رہے ہیں۔”
بوریل نے صیہونی مظالم کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی سب سے بڑی نسلی تطہیر قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر اس خطے کو "سیاحتی مقام” میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے—یہ منصوبہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا، جس کے تحت فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر کے پڑوسی ممالک، جیسے مصر اور اردن، میں آباد کرنا تھا۔
انہوں نے اس حقیقت پر شدید تنقید کی کہ یورپی یونین غزہ پر جاری صیہونی بربریت کے خلاف مؤثر اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ "یورپی یونین اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا، ہم صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے دیے گئے ہتھیار غزہ کے بچوں اور عورتوں پر برس رہے ہیں۔”
بوریل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مصر، عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے غزہ کی تعمیرِ نو کا ایک متبادل منصوبہ موجود ہے، جس میں فلسطینیوں کو ان کے علاقوں میں محفوظ رکھ کر، پٹی کی بحالی اور ترقی کی کوشش کی جائے گی۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے پانچ سال کا وقت اور 53 بلین ڈالر درکار ہیں، لیکن غیر قانونی صیہونی ریاست اور امریکہ نے اس کوشش کو مسترد کر رکھا ہے، کیونکہ وہ اب بھی فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے والے منصوبے سے جڑے ہوئے ہیں۔ خوش قسمتی سے، بیشتر عرب و بین الاقوامی تنظیموں نے ان خطرناک ارادوں کو مسترد کر دیا ہے۔
اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں، بوریل نے یورپی نوجوانوں کو خبردار کیا کہ وہ مالیاتی اور دفاعی سطح پر اتحاد کو مزید مؤخر نہ کریں، ورنہ دنیا ٹرمپ جیسے غیر مستحکم عناصر اور ولادیمیر پوٹن جیسے آمروں کے رحم و کرم پر آ جائے گی۔ ان کے مطابق، یورپ کا اصل چیلنج اب اندرونی استحکام نہیں، بلکہ بیرونی دنیا سے تعلقات کی تنظیم نو ہے۔
انہوں نے یوکرین کے خلاف روسی حملے کے ابتدائی مرحلے میں یورپی ردعمل کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ہتھیاروں کی فراہمی میں تاخیر نے یوکرین کو سنگین نقصان پہنچایا۔”