روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
غزہ کے مغربی حصے میں واقع محلہ الرمال ایک بار پھر قابض اسرائیل کی سفاکیت کی لرزہ خیز تصویر بن گیا جہاں شہری دفاع کی ٹیموں نے تباہ شدہ مکان کے ملبے تلے دبے درجنوں فلسطینی شہداء کے جسد خاکی برآمد کیے۔ یہ وہ گھر تھا جسے قابض اسرائیل نے جنگ کے دوران پورے خاندان سمیت زمین بوس کر دیا تھا اور جس کے نیچے شہداء کی خاموش چیخیں مہینوں تک ملبے میں دفن رہیں۔
شہری دفاع کے عملے نے غزہ میں ایک طویل اور کٹھن آپریشن کے بعد سالم خاندان کے شہداء کے جسد خاکی ابو رمضان خاندان کے مکان کے ملبے سے نکالے جو قابض اسرائیل کی بمباری میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ یہ مکان غزہ شہر کے مغرب میں واقع تھا جہاں جنگی جارحیت نے زندگی کی ہر علامت کو روند ڈالا۔
اس مشن کے کمانڈر مقدم محمود الشوبکی نے بتایا کہ ریسکیو ٹیمیں جائے وقوعہ سے تمام شہداء کے جسد خاکی نکالنے میں کامیاب ہو گئیں جن کی تعداد 60 ہے۔ ان میں سے بعض جسد خاکی محض باقیات کی صورت میں تھے جبکہ 17 دیگر جسد خاکی ایسے تھے جو جنگ کے دوران مکان کے آس پاس عارضی طور پر دفن کیے گئے تھے اور اب انہیں بھی منتقل کر لیا گیا ہے۔
محمود الشوبکی نے نشاندہی کی کہ یہ دل دہلا دینے والا کام انتہائی محدود وسائل کے ساتھ انجام دیا گیا۔ ریسکیو ٹیموں نے صرف باقر حبار اور کباش جیسے سادہ آلات استعمال کیے جبکہ جدید مشینری دستیاب نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مشن تین دن تک مسلسل جاری رہا اور اہلکاروں نے جان توڑ محنت کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیا۔
انہوں نے فوری طور پر بھاری مشینری اور جدید آلات کی فراہمی کا مطالبہ کیا تاکہ غزہ کے مختلف علاقوں میں ملبے تلے دبے ہزاروں شہداء کے جسد خاکی نکالنے کے عمل کو تیز اور مؤثر بنایا جا سکے کیونکہ موجودہ حالات میں یہ کام انسانی طاقت سے ممکن نہیں رہا۔
محمود الشوبکی نے مزید بتایا کہ شہری دفاع کی ٹیمیں آج یرموک کے علاقے کی جانب روانہ ہو چکی ہیں جہاں النبریص خاندان کے مکان کے ملبے تلے دبے دیگر شہداء کی تلاش جاری ہے۔
شہری دفاع اور متعلقہ ادارے مسلسل ان شہداء کے جسد خاکی نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قابض اسرائیل کی فوج نے نسل کشی کی جنگ کے دوران گھروں اور عمارتوں کو مکینوں سمیت تباہ کر کے ملبے تلے دبا دیے تھے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو غزہ کے ہر گلی کوچے میں اپنی گواہی دے رہا ہے۔
وزارت صحت کے مطابق ایمبولینس اور شہری دفاع کی ٹیموں کو سینکڑوں تباہ شدہ گھروں کے نیچے دفن شہداء تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھاری مشینری کی شدید قلت اور حفاروں جیسی اہم مشینوں کی عدم دستیابی ہے جو ریسکیو آپریشن کے لیے ناگزیر ہیں۔
اگرچہ غزہ میں سنہ 2025ء کی 10 اکتوبر سے سیز فائر کا معاہدہ نافذ ہے تاہم قابض اسرائیل بدستور اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کر رہا ہے اور غزہ میں سینکڑوں بھاری مشینوں کے داخلے کو روک رہا ہے جو لاکھوں ٹن ملبہ ہٹانے کے لیے ضروری ہیں۔
سرکاری میڈیا دفتر کے اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیل نے نسل کشی کے دو برسوں کے دوران غزہ کی تقریباً 90 فیصد شہری بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا جس کے نتیجے میں 70 ملین ٹن سے زائد ملبہ جمع ہو چکا ہے۔ یہ خطے کی تاریخ کی بدترین انسانی آفات میں سے ایک ہے۔
شہری دفاع نے اپنی گذشتہ بیانات میں انکشاف کیا تھا کہ غزہ کی درجنوں خاندانوں کی جانب سے مسلسل اپیلیں موصول ہو رہی ہیں کہ ان کے پیاروں کے جسد خاکی مہینوں بعد بھی ملبے تلے دبے ہیں مگر ضروری آلات کی عدم دستیابی ان دردناک فریادوں کا جواب دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔