(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اطالوی دارالحکومت روم اور شہر میلان میں قابض اسرائیل کی جانب سے امدادی کشتی میڈلین پر غیر قانونی قبضے کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ یہ کشتی غزہ کی پٹی کے محصور اور تباہ حال فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد لے کر جا رہی تھی۔
روم کے تاریخی مقام البانتھیون پر سینکڑوں مظاہرین جمع ہوئے، جنہوں نے فلسطینی پرچم لہرائے اور گرفتاریوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ قابض اسرائیل فوری طور پر کشتی پر سوار بارہ انسان دوست کارکنوں کو رہا کرے جنہیں غیر منصفانہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔
احتجاجی جلوسوں میں ظلم بند کرو، صہیونی فوج کو اسلحہ کی فراہمی روکو، آزاد بحری بیڑے کو نقصان نہ پہنچاؤ اور قابض اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جیسے بینرز اور نعرے نمایاں تھے۔ مظاہرین نے غزہ میں قابض اسرائیل کی جاری نسل کشی کے خاتمے اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا۔
میلان میں بھی دو مقامات پر احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے، ایک میرکانٹی اسکوائر میں اور دوسرا صوبائی عمارت کے سامنے، جہاں تقریباً پانچ سو مظاہرین نے قابض ریاست کے مظالم اور غزہ کے محاصرے کی شدید مذمت کی۔
قابض صہیونی حکومت کی وزارت ِخارجہ نے منگل کی صبح اعلان کیا کہ میڈلین کشتی پر موجود تمام کارکنان کو تل ابیب ہوائی اڈے منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ انہیں ان کے آبائی ملکوں کو واپس بھیجا جا سکے۔ قابض حکام نے یہ بھی دھمکی دی کہ جو کارکنان واپسی کے کاغذات پر دستخط نہیں کریں گے، انہیں اسرائیلی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کشتی پر بارہ سرگرم کارکنان شامل تھے جن میں فرانسیسی شہریوں کی اکثریت تھی، جن میں یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن، سیاسی کارکن باسکل موریرس، ماحولیاتی کارکن رِوا ویارڈ، الجزیرہ کے صحافی عمر فیاض، ڈاکٹر بپٹسٹ آندرے اور صحافی یانیس محمدی شامل تھے۔ دیگر میں سویڈن کی گریٹا تھنبرگ، ترک نژاد جرمن یاسمین اجار، برازیلی ٹیاغو آویلا، ترک شعیب اوردو، ہسپانوی سرجیو ٹوریبویو، اور ہالینڈ کے مارکو فان رین شامل تھے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ غزہ پر عائد پابندیوں کو توڑنے کی کوشش کرنے والی دوسری کشتی ضمیر پر سنہ2023ء میں قابض فوض نے ڈرون حملے کیے تھے، جس سے کشتی کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
سنہ2023ء کے اکتوبر سے قابض صہیونی حکومت امریکہ کی مکمل حمایت سے غزہ کی پٹی میں وحشیانہ کارروائیوں اور نسل کشی میں مسلسل مصروفِ عمل ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید و زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔