تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
اسلام ممالک کی تعاون کی تنظیم یعنی او آئی سی کا قیام درا صل ایسے وقت میں عمل میں لایا گیا تھا جب21اگست سنہ1969ء میں غاصب صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ (قبلہ اول ) ک ونذر آتش کرنے کی گھناؤنی کوشش کی تھی جس کے نتیجہ میں مسجد کو شدید نقصان بھی پہنچا تھا، تاہم ضرورت پیش آئی تھی اور مفتی امین الحسینی کی اپیل پر پہلی مرتبہ 24اسلامی ممالک پر مشتمل یہ فورم تسکیل پایا جو بعد ازاں 57ممالک تک جا پہنچاتھا۔ویسے تو اس تنظیم کے اغراض و مقاصد کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں بہت سے مقاصد نظرآتے ہیں لیکن چونکہ فلسطین میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کئے جانے کے حادثہ نے ہی اس تنظیم کو جنم دیا لہذااس تنظیم کی سب سے اہم ذمہ داریوں میں مسئلہ فلسطین شامل ہے اور یقیناًمسئلہ فلسطین تمام تر مسائل سے اولین مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔انتہائی افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی ممالک کی یہ تنظیم بھی اقوام متحدہ کی طرح مسئلہ فلسطین کے حل اور فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ مسئلہ فلسطین کے عنوان سے او آئی سی نے متعدد اجلاس بلائے جن میں سربراہی اجلاس بھی شامل تھے اور ابھی حالیہ اجلاس تو ایک مرتبہ پھر ترکی میں مورخہ18مئی کو انجام پایا ہے۔اسی طرح افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ او آئی سی اپنے اہداف و مقاصد میں اس لئے بھی کامیاب نہیں ہو پائی کیونکہ متعد د اسلامی ممالک کے حکمران ہمیشہ سے ہی امریکی کاسہ لیسی میں مصروف عمل رہے ہیں اور امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف کسی بھی عملی اقدام کو کرنے سے گریزاں ہیں۔
ماضی میں ہونے والے فلسطین سے متعلق اجلاس کی بات نہیں کرتے چونکہ بحث طویل ہوتی چلی جائے گی تاہم گذشتہ برس اور حالیہ دنوں ہونے والے دو اہم ترین اجلاس پر تبصرہ ضرور کیا جائے گا۔
گزشتہ برس 13دسمبر 2017ء کو ترکی کے صدر اردگان نے او آئی سی کا اہم ترین اجلاس اس وقت بلا لیا جب امریکی صدر ٹرمپ نے یروشلم (القدس) سے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے اسے غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا جسے حالیہ دنوں مورخہ14مئی کو عملی جامہ پہنایا گیاہے۔بہر اس موقع پر ترک صدر نے انتہائی عجلت کا مظاہرہ کیا اور فلسطینیوں کا درد سینے میں لئے سب سے پہلے آگے بڑھ کر او آئی سی کا اجلاس طلب کر لیا لیکن ااس اجلاس کے فیصلوں نے جہاں فلسطینیوں کے درد کا مداوا کرنا تھا وہاں نہ صرف فلسطینیوں کی پیٹھ پر خنجر گھونپ دیا گیا بلکہ پوری مسلم امہ کو بھی حیران کن صورتحال میں لا کھڑا کیا، اس اجلاس میں کہ جس کا مقصد قبلہ اول بیت المقدس کی شناخت کو امریکی فیصلوں کے سامنے محفوظ کرنا اور دفاع کرنا تھا اس میں کہا گیا کہ مشرقی القدس فلسطین کا ابدی دارلحکومت ہے، جبکہ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو القدس شہر جو مشرقی و مغربی حصوں پر مشتمل ہے دراصل پورے کا پورا ہی فلسطین کا ابدی دارلحکومت رہاہے جبکہ سنہ1948ء سے مغربی القدس کا علاقہ پہلے ہی غاصب صیہونی ریاست کے تسلط میں ہے ۔لہذٰا او آئی سی کی اس قرار داد نے جہاں ایک طرف سنہ48ء کے صیہونی غاصبانہ تسلط کو بھی قانونی شکل دے ڈالی وہاں قبلہ اول کے تشخص کے عنوان سے فلسطینی مسلمانوں اور مسلم دنیا کے جذبات بھی مجروح کر ڈالے۔افسوس ہے کہ اگر اس اجلاس میں مسلم دنیا کے یہ حکمران واضح اور شفاف فیصلہ کرتے تو شاید آج امریکہ کو یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ فلسطینیوں کی لاشوں پر سے ہوتا ہوا القدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کر لیتا۔واضح رہے کہ او آئی سی کے اس اجلاس میں چند ایک مسلمان ممالک نے مشرقی القدس سے متعلق قرارداد کی مخالفت کی تھی تاہم متعدد عرب ممالک اور میزبان ترکی اس بات پر متفق تھے۔
اب ذرا حالیہ دنوں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس کی روئیداد بھی سن لیتے ہیں کہ آخر امریکی سفارتخانہ کے قیام کے بعد او آئی سی نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے کہ جس کے باعث امریکہ اپنا سفارتخانہ القدس سے واپس لوٹا دے گا، یقیناًایسا کچھ بظاہر نظر نہیں آ رہا ہے اور شاید فلسطینی بھی اس بات کواسی دن ہی سمجھ چکے تھے کہ او آئی سی سے ان کو مزید کوئی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔جب اسی او آئی سی نے مسئلہ فلسطین کے امریکی راہ حل کہ جس میں دو ریاستی حل کا
فارمولا تسلیم کیا تھا۔اس مرتبہ کے اجلاس میں ترک صدر نے آگے بڑھ کر اسرائیل کو دہشت گرد ریاست کا لقب دیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ اسرائیل کا وجود ایک غاصب اور جعلی وجود ہے ، کیونکہ شاید اس میں ان کی مجبوریاں شامل حال ہوں گی کیونکہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ فری ٹریڈ کا سلسلہ بنارکھا ہے اور اسی طرح فلسطینی عوام کا حق یعنی فلسطین سے نکلنے والی گیس کو اسرائیل سے ترکی ہی خرید رہاہے اور جبکہ اسرائیل اور ترکی مابین متعدد منصوبے جاری ہیں، حال ہی میں ترک صدر ہی تھے کہ جنہوں نے کہا تھا کہ ترکی کو اسرائیل جیسی ریاست کی ضروررت ہے اور اسرائیل کوبھی ترکی جیسی ریاست کی ضرورت ہے۔جب اس طرح کے بیانات اور جذبات مسلمان حکمران غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے لئے رکھیں گے تو پھر امریکہ کے لئے فلسطینیوں کی لاشوں پر سے گذرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ منتقل کرنا کون سا بڑا کام ہے۔
اس مرتبہ بھی او آئی سی میں صرف امریکہ کی لفاظی مذمت کی گئی ہے اور فلسطینی عوام کے قتل عام پر اسرائیل کو دہشت گرد کا لقب دیا گیا،ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ جس میں کہا گیا ہوں کہ مسلم دنیا کے حکمران امریکہ کے سفارتخانوں کو اپنے اپنے ممالک میں اس وقت تک بند کرنے کا اعلان کر رہے ہیں کہ جب تک امریکہ فلسطین کے ابدی دارلحکومت یروشلم (القدس) سے اپنا سفارتخانہ واپس نہیں ہٹا لیتا۔واضح رہے کہ ترکی نے چند روز قبل فلسطین میں ہونے والے صیہونی مظالم کے عنوان سے ترکی کے سفیر کو اسرائیل سے واپس بلا لیا تھا اور اسرائیل کے سفیر کو ترکی سے واپس بھیج دیا تھا لیکن او آئی سی کے اجلاس کے اختتامیہ میں مسلمان دنیا ترک صدر کی زبان سے یہ الفاظ سننے کے مشتاق تھے کہ ترکی میں موجود اسرائیل کے سفارتخانہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر کے اس عمارت کو منہدم کیا جا رہاہے یا پھر یہ کہ فلسطینی سفارتخانہ اس مقام پر منتقل کر دیا جائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے حکمرانوں کے د ل فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلواریں غاصب صیہونیوں کے خلاف نہیں ہیں ، ان حکمرانوں میں تو اتنی بھی جرات اور ہمت باقی نہیں ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہی کو ختم کر دیں اور دوسرے مرحلہ میں امریکی سفارتکارں کو مسلم دنیا کے ممالک سے نکال باہر کریں تا کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کو بھی اندازہ ہو سکے کہ مسلم دنیا کے حکمران فلسطین کی مظلوم عوام کی پشت پر عملی طور پر ہیں نہ کہ زبانی کلامی دعووں کے ذریعہ ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران فلسطین کے مظلوم عوام کی پش پناہی کے لئے عملی راستہ اختیا ر کریں، مسلم دنیا کی افواج کو یمن کے مظلوم عوام کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کے لئے استعمال کریں۔