تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے تم سے محبت تو بہت ہے لیکن یاد رکھوں امریکہ کی مدد کے بغیر تم اور تمھارا اقتدار دو ہفتے سے بھی زیادہ نہیں چل پائے گا۔دراصل امریکی صدر نے آل سعود حکمران طبقہ کو خبر دار کیا ہے کہ جس طرح سے آل سعود کی جانب سے امریکہ سے اسلحہ لینے کی مد میں اور امریکہ کو سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں تک رسائی حاصل ہے وہ اسی طرح سے جاریر ہنا چاہئیے بصورت دیگر امریکی صدر نے شاہ سلمان کو زبردست طریقے سے ان کی اصلیت کی پہچان کروا دی ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دوراقتدار کے پہلے روز سے ہی دنیا کے امن کو تہس نہس کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے حالانکہ ان سے پہلے والی امریکی حکومتوں نے بھی دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی تھی تاہم امریکی صدر کے چند ایک جارحانہ عزائم اور فیصلہ واضح دلیل ہیں کہ وہ دنیا کے امن و امان کو مکمل طور پر تباہ وبرباد کر کے دنیا کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں۔جیسا کہ پہلے انہوں نے میکسیکو کے حوالے سے بیانات دئیے، پھر سیاہ فام امریکیوں کے خلاف عزائم سامنے لائے اور سب سے بڑھ کر امریکی صدر نے فلسطین کے ابدی دارلحکومت ’’القدس‘‘ کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا جسے پوری دنیا نے اقوام متحدہ میں مستردکیا تاہم ٹرمپ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے القدس شہر میں منتقل کر دیاگیا البتہ اب امریکیوں کو وہاں درپیش مشکلات کیا ہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
بہر حال اس مرتبہ امریکہ نے سعودی عرب کو ایک ایسا آئینہ دکھایا ہے جسے شاید دنیاکے بہت سے لوگوں نے نہ دیکھا ہو۔پہلے امریکہ ہی کے کہنے پر سعودی عرب کی حکومت نے یمن میں جنگ مسلط کی اور اس جنگ کو گذشتہ پانچ برس سے جاری رکھنے کے لئے امریکہ کہ ساتھ اسلحہ کے بڑے بڑے معاہدے کئے اور اسلحہ کی خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ امریکی فوجیوں کی اس جنگ میں شمولیت کی بہت بڑی رقم اور معاوضہ کبھی تیل کی صورت میں اور کبھی مال ودولت کی صورت میں ادا کیا۔اسی طرح امریکی صدر یعنی دنیا کے سب سے بڑی شیطان ٹرمپ کو مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر بلا کر مسلمان ممالک کو امریکہ کی غلامی پر مجبور کرنے کا میدان بھی سجایا گیا تھااور اس کے نتیجہ میں پھر نام نہاد اسلامی ملٹری الائنش تشکیل دیا گیا جس کا مقصد سعودی عرب کا نام نہاد دفاع تھا۔
اب امریکہ کاکہنا یہ ہے کہ سعودی عرب امریکہ کی مدد کے بغیر دو ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکتا ۔ یہ نہ صرف سعودی حکمرانوں کے لئے دھمکی ہے بلکہ خطر ناک صورتحال ہے کہ ایسے وقت میں جب سعودی عرب نے یمن میں جنگ مسلط کر رکھی ہے تو دوسری طرف خطے میں اور کئی ایک محاذکھول رکھے ہیں تا کہ خطے میں ظاہری بالا دستی سعودی عرب کی ہو لیکن حقیقت میں امریکہ کی۔
سیاسیات کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکہ نے سعودی عرب کو ایک دودھ دینے والی گائے کے طور پر رکھا ہوا ہے اور اس سے جتنا دودھ درکار ہے وہ نکال رہاہے تا کہ امریکی مفادات کا ایک طرف خطے میں تحفظ بھی قائم رہے اور مالی مفادات میں بھی اضافہ ہو اور عرب دنیا ہمیشہ امریکہ کی غلام بنی رہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اسلحہ کی فروخت کے بڑے سودے سعودی حکومت کے ساتھ کئے ہیں اور یمن جنگ میں بھی سعودی عربکو پھنسانے والا یہی امریکہ ہی ہے تا کہ امریکی اسلحہ فروخت ہوتا رہے اور خطے میں موجود ذخائر اور وسائل پر امریکی دسترس قائم رہے۔
میری نظر میں امریکی صدر ٹرمپ کی یہ دھمکی اور بھی بہت سے پیغام دے گئی ہے۔ یعنی اگر گذشتہ چند ایام کی بات کریں سعودی عرب کے اندر اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں سعودی حکومت کے نمک خوار تو ہر طرف بس ایک ہی واویلا کر رہے تھے کہ یمن کے حوثیوں سے مکہ مکرمہ کو خطرہ ہے اور ایسا ہی سوال پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے سعودی عرب کے دورہ کے وقت میڈیا والوں نے کیا تھا جس کا عمران خان مناسب جواب دینے کی بجائے کچھ اور ہی کہتے چلے گئے ۔حالانکہ عمران خان صاحب کو اس وقت اس سوال کے جواب میں پوچھنا چاہئیے تھا کہ مکہ مکرمہ کو خطرہ کس سے ہے؟ حوثیوں نے تو آج تک پانچ سال کے عرصہ میں ایک بھی گولی مکہ مکرمہ کی طرف نہیں چلائی البتہ میدان میں سعودی و امریکی فوجیوں سے نبرد آزما ضرور ہیں۔ بہر حال اس سوال کا جواب اب امریکی صدر کے بیان کے بعد واضح ہو چکا ہے ۔جیسا کہ پہلے بھی تحریروں میں بیان کیا ہے کہ امریکی پشت پناہی میں اسرائیل اپنی سرحدوں کو قبلہ اول بیت المقدس سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک لانے کے نقشہ بنا چکا ہے اور اسی فارمولے کے تحت پورے خطے میں کہیں داعش، کہیں القاعدہ، کہیں طالبان، کہیں النصرۃ، کہیں دیگر گروہوں کے ذریعے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم تاحال ناکامی کا سامنا ہے، لیکن اب امریکی صدر کا سعودی عرب کو دھمکانہ واقعا ایک سنگین فعل ہے جس پر مسلم دنیا کی خاموشی و بے حسی بھی سوالیہ نشان ہے۔
یمنی حوثی کہ جنہوں نے آج تک ایک بھی حملہ مکہ مکرمہ پر نہیں کیا ہے ان کے خلاف تو بھرپور واویلا کیاجاتا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی ایماء پر سعودی جارحیت کے نتیجہ میں یمن میں دسیوں ہزار لوگ موت کی نیند سلا دئیے گئے ہیں، لاکھوں بچوں کی زندگیاں وبائی امراض کے باعث داؤ پر لگی ہوئی ہیں،یمن کے مظلوم عوام کا شدید محاصرہ کیا گیا ہے اور نہ جانے کیا کیا مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔
دوسرا اہم پیغام جو امریکی صدر کی دھمکی میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح امریکی صدر نے فلسطین کے بارے میں یکطرفہ اعلان اور فیصلہ کیا تھا اور مسلم دنیا کی بڑی تعداد بے حسی کا مظاہرہ کرتی رہی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کون کھڑا ہوتا ہے؟
یہاں ایک مرتبہ پھر میں اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی کی فکر اور ان کی شخصیت کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی بنیاد ڈالی اور تفرقہ کو مٹا کر امت مسلمہ کو وحدت کی رسی میں پیرونے کا کام انجام دیا۔ ایران ہی ایسا ملک ہے جس نے فلسطین کو صیہونی شکنجہ سے آزادی دلوانے کی خاطر جس طرح امریکہ و اسرائیل سے دشمنی لے رکھی ہے آج جب سعودی عرب کے حکمرانوں کی تذلیل کی گئی ہے اور عرب اقوام کو ٹرمپ نے ذلیل کیا ہے تو ایران نے آگے بڑھ کر امریکہ کو پیش کش کی ہے کہ آئیں مسلم دنیا اور امت کے وقار کے تحفظ کی خاطر مل کر اسلام ومسلمین کے ازلی دشمن شیطان بزرگ امریکہ کے خلاف متحد ہو جائیں ۔یقیناًیہ بہت بڑی پیش رفت ہو گی اور اب فیصلہ بالآخر سعودی عرب کی حکومت کو کرنا ہے کہ کیا وہ اس ذلت کے ساتھ امریکہ کی گود میں بیٹھے رہیں گے یا عرب غیرت و حمیت کے مطابق اس ذلت کا انتقام یمن کے مظلوم عوام سے نہیں بلکہ دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ کی ناک زمین پر رگڑ کر لیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے صرف سعودی عرب کے حکمرانوں اور عوام کی ذلت و رسوائی نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ ذلت پورے مسلمانوں کی ہے کیونکہ سعودی عرب میں موجود مقدس مقامات آل سعود کی ملکیت نہیں بلکہ مسلم امہ کا اثاثہ ہے۔تاہم مسلمان ممالک کو امریکہ کے خلاف سخت سے سخت انداز میں سامنے نکل کر آنا چاہئیے اور اپنے اختلافات کو بھلا کر اسلام ومسلمین کے سب سے بڑے دشمن شیطان بزرگ امریکہ کے خلاف متحد ہونا چاہئیے۔