تحریر: عرفان علی
امریکا کے محکمہ خارجہ کی ترجمان خاتون ہیتھر نوئرٹ نے 10ستمبر 2018ء بروز پیر واشنگٹن میں سولہ سطر پر مشتمل دو پیراگراف کا ایک بیان جاری کرکے امریکی دارالحکومت میں قائم تنظیم آزادی فلسطین کے دفتر کی بندش کا اعلان جاری کیا ہے۔ گوکہ اس بیان میں تو کہیں نہیں لکھا لیکن امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی خبر میں انکشاف کیا ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے دفتر کو ہدایات جاری کردی گئیں ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دس اکتوبر تک اس دفتر کو بند کردیا جائے۔ فلسطینی قیادت جو ہر طرف سے گھیرے میں تھی اور جس پر شدید دباؤ تھا کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے کے اپنے موقف سے باز رہے، جعلی ریاست اسرائیل کو ایک جائز قانونی ریاست تسلیم کرکے اس سے صلح کرلے، جب وہ مزید جھکنے پر آمادہ نہیں ہوئی تو پہلے اس کو امداد کے عنوان سے دی جانے والی رقوم میں کٹوتیاں کی گئیں اور آخر کار اب دفتر کے بند کرنے کا حکم صادر کردیا گیا ہے۔ امریکا فلسطینی قیادت سے اس لئے بھی ناراض ہے کہ محمود عباس جو کبھی انکے لاڈلے ہوا کرتے تھے، اب وہ بھی اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت برائے جرائم (انٹرنیشنل کریمنل کورٹ) میں مقدمہ پیش کرکے اسے سزا دلوانے کی دھمکی دے چکے تھے اور اور انکی ان کوششوں کو بھی امریکا نے اپنے فیصلے کی وجوہات میں سے ایک وجہ کے طور بیان کیا ہے۔امریکی حکومت کا الزام یہ ہے کہ انہوں نے تنظیم آزادی فلسطین کو دفتر کھولنے کی اجازت اس لئے دی تھی تاکہ وہ ایسے کام کریں کہ جس سے فلسطین و اسرائیل کے مابین جامع و پائیدار امن قائم ہو، اس لئے انہیں نومبر 2017ء میں بھی مہلت دی گئی تھی۔ سال 2015ء میں امریکی مقننہ کانگریس نے امریکی حکومت کو پابند کیا تھا کہ اگر فلسطینی قیادت اسرائیل کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں گھسیٹے تو واشنگٹن ڈی سی میں اسکا دفتر بند کر دیا جائے، لیکن امریکی حکومت نے اسے مہلت دی۔ فلسطینی قیادت کے ساتھ براہ راست اور سعودی حکومت کے ذریعے بھی امریکا نے اپنے مجوزہ امن منصوبے کے نام پر ایک انتہائی غیر منصفانہ حل فلسطینیوں پر تھوپنے کی کوشش کی۔ امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان کے بیان میں اس کا بھی تذکرہ شامل ہے کہ فلسطینی قیادت نے امریکا کے امن منصوبے کو دیکھے بغیر ہی اسکی مذمت (و مخالفت )کرتے ہوئے اس ایشو پر امریکا کے ساتھ بات چیت سے ہی انکار کردیا۔ حالانکہ مجوزہ امریکی امن مصوبہ جسے اس نے ڈیل آف دی سینچری یا صدی کا سب سے بڑا معاہدہ قرار دے رکھا تھا، وہ ویسے ہی لیک ہو چکا تھا اور مقبوضہ یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت مان کر اور وہاں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کرکے امریکا کی ٹرمپ حکومت نے کہنے سننے کیلئے گنجائش چھوڑی ہی کہاں تھی۔
ایک طرف فلسطینی قیادت کہ جسے امریکا نے خود فلسطینیوں کی نمائندہ قیادت کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس کے ساتھ اسرائیل کے معاہدے کروائے تھے، اسے امریکا نے خود ہی دھتکار دیا تو ساتھ ہی اقوام متحدہ اور مصر کے ذریعے حماس و اسرائیل میں جنگ بندی کی کوششیں کی گئیں اور درمیان میں امریکی اتحادی قطر کی حکومت بھی کو دی کہ یہ جنگ بندی ہو جائے تو وہ غزہ کو امداد دے گی، حالانکہ قطر، مصر، اقوام متحدہ سمیت سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جعلی ریاست اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی کبھی پاسداری نہیں کی اور اس نے تعلیمی اداروں، مساجد اور اسپتالوں تک پر میزائل برسا کر فلسطینی املاک کو بھی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے، اسکے باوجود اسرائیل کو سزا نہیں دی جاتی بلکہ اس کے دفاع میں فلسطینی مقاومت کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ انکے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرے۔ بہرحال، فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سے ایران کا موقف حرف بہ حرف درست ثابت ہوا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا عادلانہ حل یہی ہے کہ یہاں ایک فلسطینی ریاست ہو جس میں فلسطین کے اصل باشندے خواہ وہ عرب ہوں یعنی مسلمان و مسیحی یا یہودی ہوں، ان کو حق رائے دہی دیا جائے، ریفرنڈم کروایا جائے تاکہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا تعین خود کریں اور نسل پرست صہیونی نظریہ یعنی زایونزم کے تحت جو غیر ملکی یہودی یہاں لاکر بسائے گئے، انہیں انکے وطن واپس بھیجا جائے جبکہ جو فلسطینی بے گھر کئے گئے انہیں پناہ گزین کیمپوں سے واپس اپنے وطن فلسطین پہنچا کر دوبارہ آباد ہونے کا حق دیا جائے۔ فلسطینی قیادت و مقاومت قدم بہ قدم عقب نشینی کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہوئے ہیں، اور مسلح مزاحمت ہی وہ واحد منطقی حل تھا جو طاقتور غاصب سے حق دلانے کا سبب بنتا تھا، اور اسی مسلح مزاحمت نے یاسر عرفات اور تنظیم آزادی فلسطین کو دنیا بھر میں اور خاس طور عربوں اور مسلمانوں میں ہیرو کا درجہ عطا کیا تھا اور جب وہ اپنے حق پر مبنی منطقی و مدلل موقف سے دستبردار ہوکر مسلح مزاحمت چھوڑ بیٹھے تب فلسطینیوں میں حزب جہاد اسلامی و حماس کی مسلح مقاومت کو پذیرائی حاصل ہوئی۔
سوچنے کی بات ہے کہ اوسلو معاہدے نے یاسر عرفات یا تنظیم آزادی فلسطین یا فلسطینیوں کو کیا دیا؟ فلسطینیوں کی محدود خودمختاری کو تسلیم کرنے والی صہیونی ریاست اسرائیل نے آج تک دریائے اردن کے مغربی کنارے کے اکسٹھ فیصد قیمتی علاقے پر اپنا براہ راست تسلط برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ ناجائز قبضہ فلسطین کی اقتصادی موت کے مترادف تھا اور ہے کیونکہ اس سے فلسطینی معیشت کو سالانہ تین ارب چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہوتا رہا ہے۔ اس نقصان کا سبب مذکورہ بالا وہ اکسٹھ فیصد زمین جو قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے، جس پر اسرائیل کا تسلط ہے۔ اوسلو معاہدے کے تحت اس زمین کا کنٹرول مرحلہ وار فلسطینی انتظامیہ کے حوالے کیا جانا چاہیئے تھا۔ یہ اہم کام انیس سو اٹھانوے تک پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہیئے تھا۔ لیکن فلسطین کے وسیع حصے پر قابض ناجائز صہیونی ریاست نے آج تک اپنی اس ذمے داری کو نہیں نبھایا جس کی وہ اوسلو معاہدے کے تحت پابند ہے۔ یادش بخیر کہ اوسلو معاہدے کے تحت مقبوضہ فلسطین کے جس علاقے پر فلسطینیوں کی حکومت کا حق تسلیم کیا گیا تھا وہ مغربی کنارہ اور غزہ تھے۔ ساڑھے 5ہزار مربع کلومیٹر پر محیط مغربی کنارہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایریا اے میں رہائشی شہری علاقہ اور ایریا بی میں قصبے اور دیہات شامل ہیں اور انھیں جزیرہ نما علاقے کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔ یہ دو ایریاز کل مغربی کنارے کا 39فیصد ہیں، انہیں فلسطینی انتظامیہ کے اختیار میں دیا گیا۔ یہ اختیار بھی عجیب تھا کہ یاسر عرفات مغربی کنارے میں زیر زمین بنکر میں چھپ کر اسرائیلیوں سے جان بچانے پر مجبور ہوئے مغربی کنارے کا 61فیصد علاقہ ایریا سی اسرائیلی کنٹرول میں ہی رہا۔ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اکسٹھ فیصد علاقہ یعنی ایریا سی، قدرتی ذخائر کی وجہ سے فلسطینیوں کی اقتصادی لائف لائن ہے۔
امریکا میں قائم ورلڈ بینک نے اکتوبر 2013ء میں ایک مفصل دستاویز کا عنوان اس علاقے کو قرار دیا۔ ’’ایریا سی اور فلسطینی اقتصاد کا مستقبل‘‘ کے عنوان کے تحت اس رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ اس قیمتی زمین پر اسرائیلی کنٹرول کی وجہ سے فلسطین کی اقتصادی (یا معیشت) کو سالانہ تین ارب چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یعنی پندرہ سالوں میں اکیاون بلین ڈالر کا نقصان! ورلڈ بینک کی دستاویز کے مطابق فلسطینی اقتصادیات تبھی بہتر ہو سکتی ہے کہ جب اس ایریا سی کا کنٹرول ان کے پاس ہو۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ تیس ہزار فلسطینیوں کو نئی نوکریاں ملیں گی۔ اس سے ان کی فی کس آمدنی میں پینتیس فیصد اضافہ ہو گا اور غیر ملکی قرضوں پر ان کا انحصار بھی کم ہو گا۔ دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس علاقے پر اسرائیلی کنٹرول کے سبب فلسطینی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان مضر اثرات کا تذکرہ پچھلے عشرے میں جاری کی گئی ورلڈ بینک کی رپورٹوں میں کیا جاتا رہا تھا۔ یہ نکتہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینیوں کو امریکا سمیت کسی سے بھی خیرات و بھیک و امداد کی ضرورت کبھی تھی ہی نہیں بلکہ اسرائیل اور اسکے سہولت کار تو خود ہی فلسطینیوں کی قیمتی سرزمین کے وسائل کو ہی لوٹتے رہے ہیں۔ آج غزہ کے اسپتالوں کی بندش کا خطرہ سر پر منڈلارہا ہے کیونکہ اس مد میں بھی فلسطینیوں کو ادائیگی روک دی گئی ہے۔
فلسطینی قیادت اور حماس کے رہنماؤں کے سامنے قدرت نے یہ حقیقت منکشف کردی ہے کہ امریکا کے اتحادی مسلمان عرب حکمرانوں کے آسرے پر ان کے ساتھ انصاف نہیں ہونے والا۔ انکی مسلح مزاحمت ہی انکی نجات کی واحد راہ تھی، جس نے ظالم و غاصب دشمن کو صلح و مفاہمت پر مجبور کیا، مذاکرات و معاہدوں کا ہدف اسرائیل کا دفاع تھا۔ مصر، اردن، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، یہ سبھی امریکی اتحادی ہیں اور امریکا اسرائیل کی بقاء کا ضامن بنا بیٹھا ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین کے دفتر کی بندش سے کوئی مصیبت نازل نہیں ہو جائے گی بلکہ اب فلسطینی قیادت کو اس اکسٹھ فیصد علاقے کو فوری طور اپنے کنٹرول میں لے کر تین بلین چالیس کروڑ ڈالر سالانہ آمدنی سے اپنے معاملات چلانے کی فکر کرنی چاہیئے۔ فلسطینی قیادت و مقاومتی تحریک حماس و حزب جہاد اسلامی سمیت سارے فلسطینی گروہوں کو متحد ہوکر اپنے مادر وطن اور مقبوضہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لئے پہلے سے زیادہ موثر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ اور خاص طور مسلمان و عرب رائے عامہ فلسطینیوں کی طرفدار ہے، اور اب تو انکے سامنے صرف حزب اللہ لبنان ہی نہیں بلکہ یمن کی حرکت انصاراللہ کا ماڈل بھی موجود ہے کہ کس طرح تعداد و وسائل کی کمی کے باوجود فرزند زمین مادر وطن کے دفاع میں سر سے کفن باند ھ کر نکلتے ہیں اور ڈٹ کر ایسا مقابلہ کرتے ہیں کہ جارح دشمن تمام تر وسائل و عددی برتری کے باوجود ناکام و رسوا ہی رہتا ہے۔ فلسطینی کسی دور میں ایسے ہی ہوا کرتے تھے، اب انہیں اپنی اصل کی طرف پلٹنے کی شدید ضرورت ہے۔