القدس آزادی کے انتظار میں
تحریر: صابر ابو مریم
Â
بحر روم کے کنارے شام سے مصر تک پھیلی ہوئی ایک طویل ساحلی پٹی ہے جسے فلسطین کہتے ہیں۔27 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ پر مشتمل یہ سرزمین انبیاء ؑ کا مرکز رہی ہے ،اسی مقدس خطہ ارض میں وہ شہر واقع ہے جسے قدیم تاریخ میں "ایلیا”یرو شلم، عربی میں
القدس اور اردو میں بیت المقدس کہا جاتا ہے۔بیت المقدس تینوں ہی آسمانی مذا ہب ا سلام،عیسائیت ا ور یہودیت کے نزدیک بے حد محترم ہے،اہل اسلام کے نزدیک اس لئے کہ یہیں مسجد اقصیٰ ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے اور جائے معراج بھی،مسیحیوں کے نزد یک اس وجہ سے کہ اسی میں ان کا سب سے مقدس چرچ "کنیسہ قیامہ "ہے جس میں بقول ان کے حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب و مدفون ہوئے اور جس پر قبضہ کیلئے متحدہ یورپ نے طویل خوں ریز صلیبی جنگیں لڑیں۔ یہودیوں کے نزدیک اس بنا پر کہ یہاں ہی کبھی وہ ہیکل سلیمانی تھا جس کی تباہی کو یاد کر کے وہ آج بھی مسجد اقصی کی مغربی دیوار کے پاس گریہ و زاری کرتے ہیں اور اس کی تعمیر نو کو عظیم تر اسرائیل کی خشت اول گردانتے ہیں۔
سنہ 48ء میں اسی مقدس سرزمین پر صیہونی نظریہ کے پیرو کاروں نے ایک غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کی بنیاد رکھتے ہوئے گریٹر اسرائیل بنانے کا ناپاک منصوبہ تیار کیا تا کہ نہ صرف فلسطین بلکہ فلسطین کے بعد جتنے بھی سرحدی ممالک اور زمینیں ہیں وہاں تک اس صیہوی جرثومہ کی جڑوں کو پھیلایا جائے ، اس مقصد کی خاطر جہاں صیہونیوں نے جنگ وجدال کیا وہاں اس سرزمین مقدس کے تاریخی و مقدس ترین اور مذہبی مقامات پر بھی اپنا غاصبانہ تسلط جمانا شروع کیا، ان میں سے چند ایک مقامات کو تو نقصان بھی پہنچایا گیا او ر تباہ و برباد کر دیا گیا جبکہ القدس جیسے متبرک اور مقدس مقام کوبھی صیہونی جنونیوں نے ایک مرتبہ1969ء میں نذر آتش کر دیا تھا لیکن اس ناپاک سازش کے نتیجے میں القدس کو منہدم کرنے یا تباہ وبرباد کرنے میں ناکام رہے۔صیہونیوں کی دہشت گرد تنظیموں نے جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرستی میں مسجد اقصیٰ کے نیچے بنیادیں کھود کھود کر کھوکھلی کر دی ہیں جس کے باعث آج قبلہ اول کو ماضی کی نسبت زیادہ خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔
بہر حال فلسطین پر صیہونی غاصبانہ تسلط کی تاریخ ستر سالہ ہو چکی ہے اور تقریباً پچاس برس سے قبلہ اول بیت المقد س بھی صیہونی تسلط اور کاروائیوں کا سامنا کر رہاہے کیونکہ جعلی ریاست اسرائیل کے بنانے والوں اور صیہونزم کے پیروکاروں کا یہ ناپاک منصوبہ ہے کہ سرزمین فلسطین سے تمام تر مقدس اور تاریخی مقامات کا صفایا کر دیا جائے اور مسجد اقصیٰ کے مقام پر از سر نو ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جائے ۔القدس گذشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی جبر و تسلط اور صیہونیوں کی جانب سے کی جانے والی بد سلوکیوں کو جھیلتا آیا ہے اور آج بھی اس انتظار میں ہے کہ کوئی اس کو صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کروانے کے لئے آئے گا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج دنیائے اسلام غرب کی غلامی وپیروی میں اس قدر مصروف عمل ہے کہ قبلہ اول وتو کیا اگر صیہونیوں نے کعبۃ اللہ پر بھی قبضہ کر لیا تو شاید مسلم دنیا کچھ نہ کر سکے گی۔(خاکم بدہن)
عالمی صیہونزم کا ہدف صرف سنہ48ء میں فلسطین پر قبضہ حاصل کر کے خاموش بیٹھ جانا نہیں تھا اور نہ ہی آج ان کا ایسا کوئی ہدف ہے، ان کا ہدف بہت واضح ہے جسے وہ بہت پہلے ہی بیان کر چکے تھے، شاید پہلی جنگ عظیم کے بعد ، اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ صیہونیوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں گی اور اس کام کے لئے انہوں نے سرزمین مقدس فلسطین و القدس کا انتخاب کیا،آج صیہونی دشمن پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ قبلہ اول بیت المقدس کو یہودیانے کی کوشش میں سرگرم عمل ہے لیکن اب دیکھنا تو یہ ہے کہ صیہونزم نے جو کہا وہ تو کر دکھایا ہے لیکن دنیائے اسلام کس خواب خرگوش میں ہے؟
دنیائے اسلام کی غفلت و لا پرواہی آج اس بات کا سبب بن چکی ہے کہ اسرائیل اپنے گریٹر اسرائیل جیسے منحوس منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف عمل ہے اور اس کام میں دنیائے اسلام کے چند عرب ممالک بھی اسرائیل کا براہ راست یا بالواسطہ ساتھ دے رہے ہیں، جس کی ایک مثال خطے میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا پیدا کیا جانا کہ جس کے بارے میں واضح طور پر دلائل سامنے آ چکے ہیں کہ اسرائیل نے داعش کو اپنی فرنٹ لائن جنگ لڑنے کے لئے پیدا کیا تا کہ خطے کو غیر مستحکم کر کے گریٹر اسرائیل کے منحوس نقشے میں رنگ بھرے جا سکیں اور اس کام کے لئے خطے کی عرب ریاستوں نے بھی اسرائیل کی طرح داعش کا بھرپور ساتھ دیالیکن اسلامی مزاحمت کے سپوتوں کی جوانمردی کے باعث بالآخر اسرائیل او ر اس کے عرب نمک خواروں کو منہ کی کھانی پڑی ہے ۔
دنیائے اسلام کی غفلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب اسرائیل ان کے گھروں تک آن پہنچا ہے لیکن یہ اس کو اپنا دوست مان رہے ہیں اور دوسری طرف القدس ہے کہ پکار رہاہے کہ کب امت مسلمہ کی غیرت جاگ اٹھے اور و ہ القدس کی بازیابی کے لئے آئیں، آج دنیائے اسلام کے حکمران دنیا کے سب ست بڑے شیطان امریکا کی سرپرستی میں جمع ہونا اپنے لئے فخر کی با ت تصور کرتے ہیں، حیرت انگیز بات ہے کہ پچپن مسلمان ممالک میں سے کسی میں غیرت و حمیت نام کی چیز باقی نہیں لیکن سوڈان کو تو شاباش دینا ہی ہو گی کہ جو ہر لحاظ سے ان عرب بادشاہتوں سے کمزور لیکن عزم و ارادہ اور سیاست کے میدان میں ان سب سے زیادہ عزت و وقار رکھنے والا ہے کہ جس نے امریکی شیطان کی سربراہی میں منعقد ہونے والے اسلامی مماک کے اجلاس کا بائیکاٹ اور اس کی شدید مذمت کی۔
دنیائے اسلام کی حالت زار تو یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا شیطان ان کو آپس میں لڑوانے کی ترغیب دیتا رہاجبکہ یہ القدس کو فراموش کئے رہے، ان عرب و اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے لمحہ بھر بھی فلسطین میں ہونے والے صیہونی مظالم کو یاد نہ کیا، ان مسلمان حکمرانوں کو تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ یہی امریکا ہے کہ جس کے اسرائیل کو مدد کی آڑ میں دئیے گئے اربوں ڈالر کے ہتھیار وں سے روز فلسطین کے گلی و کوچہ میں خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں، افسوس ہے اس دنیائے اسلام پر کہ جو القدس و فلسطین کو فراموش کئے ہوئے ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ القدس انتظار میں ہے، کس کے انتظار میں ؟ یقیناًالقدس ان باضمیر اور مجاہد ہستیوں کے انتظار میں ہے کہ جنہوں نے آج تک اسرائیل کے ناپاک عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن کر نہ صرف خطے کی عوام کو صیہونی فتنہ گریوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے بلکہ پورے عالم اسلام و انسانیت کی بقاء کے ضامن بنے ہوئے ہیں،القدس انتظار میں ہے ، اسلامی مزاحمت کے ان جوانوں کے ہاتھوں آزاد ہونے کے لئے کہ جنہوں نے اپنے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے، القدس کو بالکل بھی انتظار نہیں ہے اپنی آزادی کا کسی بھی عرب یا اسلامی ملک کی جانب سے کیونکہ حال ہی میں القدس یہ دیکھ چکا ہے کہ کس طرح دنیائے اسلام شیطان کبیر کے سامنے سر جھکائے بیٹھی ہے۔