الشیخ رائد صلاح کو منگل 15 اگست 2017ء کو اسرائیلی فوج نے ان کے آبائی شہر ام الفحم سے حراست میں لیا۔ Â مگر کیا ان کی گرفتاری صہیونی ریاست کی سلامتی کو مضبوط بنانے میں مدد گار ہوگی؟ یا گرفتاری سے صہیونی ریاست پہلے سے بھی زیادہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگئی ہے۔ کیا الشیخ رائد صلاح کی گرفتاری صہیونی ریاست کے گھمنڈ، خوف اور آنے والی تشویش کا اظہار ہے؟۔
نیتن یاھو ، لائبرمین اور بینٹ کا یہ خیال خام ہے کہ وہ الشیخ راید صلاح جیسے شخص کو جیل میں ڈال کر زیادہ سہولت اور بغیر مزاحمت کے مسجد اقصیٰ کو (انتقامی کارروائیوں کا) نشانہ بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ مگر یہ ان کا محض تکبر ہے۔ ہر فلسطینی الشیخ رائد صلاح ہے۔ اسرائیل کی ہرضرب فلسطینی قوم کو کمزور نہیں بلکہ اور بھی مضبوط بناتی ہے۔
اے شیخ الاقصیٰ! اگرچہ انہوں نے آپ کو جسمانی طور پرپابند سلاسل کردیا مگرآپ کی روح اور جذبہ تو گرفتار نہیں ہوسکتا۔ آپ نے جو کچھ کیا اور قبلہ اوّل کے دفاع میں نئی فلسطینی نسل کے لیے جو عملی نمونہ قائم کیا ہے وہ فلسطینی نسلوں کے لیے ایک درسگاہ سے کم نہیں۔آپ کے اس عملی نمونے اور قربانیوں نے صہیونی ریاست کے زوال کی گھڑی اور قریب کردی۔
بلا شبہ طاقت ور کبھی خوف نہیں کھاتا اور کمزورشکست خوردہ ہمیشہ باطل پر قائم رہتا ہے۔ وہ طاقت ور سے ڈرتا ہے۔ اس کا تعاقب کرتا اور اسے گرفتار کرکے جیلوں میں بند کرتا ہے۔ صہیونی پولیس کا یہ بیان کہ وہ الشیخ رائد صلاح سے تفتیش کرے گی محض ایک انتباہ ہے۔ اس بات پرکہ الشیخ رائد صلاح اسرائیل کے خلاف نفرت کو ہوا دیتے اور کالعدم اسلامی تحریک کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
جیسے جیسے الشیخ رائد صلاح کی گرفتاری اور ان کا تعاقب بڑھتا جاتا ہے، پابندیوں کے باوجود سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں الشیخ اور ان کی تحریک اتنی تقویت پکڑ رہے ہیں۔ ان کی اسی تقویت کا خوف صہیونی دشمن کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ وہ الشیخ صلاح کی قبلہ اوّل کے دفاع کی سرگرمیوں کو بھی اسرائیل کے خلاف نفرت پر اکسانے میں شمار کرتے ہیں۔
کیا بار بار گرفتاریاں، جیلیں اور تشدد الشیخ رائد صلاح کو ان کی ذمہ داریوں Â کی انجام دہی سے باز رکھنے کا ذریعہ ثابت ہوں گی؟۔ گرفتاری الشیخ رائد صلاح کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ انہیں مئی 2016ء کو وادی الجوز میں ایک متنازع خطبہ دینے کی پاداش میں نو ماہ کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ اس گرفتاری اور سزا سے ذرا بھی خوف زدہ نہیں ہوئے اور سزا پوری کرکے جنوری 2017ء کو رہا ہوئے۔
الشیخ رائد صلاح کی گرفتاری نے انسانی حقوق کی پامالیوں میں بدنام صہیونی ریاست کو مزید دنیا کے سامنے ننگا کردیا ہے۔ صہیونی ریاست کا یہ دعویٰ کہ وہ پسماندہ اور ناخواندہ عرب دنیا کے درمیان واحد جمہوریت ہے۔ یہ کہ اس کی فوج سب سے طاقت ور اور اس کے ریاستی ادارے انتہائی مضبوط ہیں۔ مگر ایک الشیخ رائد صلاح کی گرفتاری نے ریت سے بنے اسرائیلی طاقت کے محل کو زمین بوس کردیا۔
اسرائیل کا مقصد الشیخ رائد صلاح کو جیل میں ڈال کر قبلہ اوّل سے دور کرنا ہے۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمان بھی کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ یہ مسلمان ایک ایسے وقت میں غائب ہیں جب صہیونی ریاست کے تھویدی منصوبوں کے سائے میں قبلہ اوّل اور بیت المقدس شہر کوسنگین خطرات لاحق ہیں۔
الشیخ رائد صلاح اپنی ذات میں ایک امت ہیں۔ ایک سال قبل جب انہیں جیل میں ڈالا جانے لگا تو مجھ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ’جیل Â میرے اور پوری امت کے لیے باعث فخر ہے۔ ہم دفاع مسجد اقصیٰ اور القدس شریف کے تحفظ کے لیے جیلیں کاٹ رہے ہیں۔ میں جیل اللہ کی مشیت سے جا رہا ہوں نہ کہ نیتن یاھو کی مشیت سے‘۔
نصرت پر کامل یقین الشیخ رائد صلاح کا طرہ امتیاز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے جیلوں میں ڈالے جانےسے Â مسجد اقصیٰ کے لیے میری Â تائید پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہی کام میری قائم کردہ اسلامی تحریک کررہی ہے۔ اسلامی تحریک سنہ 1948ء کے علاقوں میں صہیونی ریاست کے زوال تک اپنا مشن جاری رہے گی۔
الشیخ رائد صلاح کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے فلسطینی قوم میں بیداری پیدا کی۔ مسجد اقصیٰ کے لیے قوم میں محبت کے جذبات اجاگر کیے۔ مرور وقت کے ساتھ ان کی محبت اور بڑھی۔ انہوں نے القدس اور قبلہ اوّل کے خلاف صہیونی ریاست کے مذموم عزائم کا ادراک کیا۔ القدس میں فلسطینیوں کی حالیہ نصرت میں الشیخ رائد صلاح کا کلیدی کردار ہے۔ صہیونی ریاست یہ نہیں چاہتی کہ قربانی اپنے ذبحہ کیے جانے پر اعتراض کرے بلکہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ قربانی اپنے ذبحہ کیے جانے پر اس کا شکریہ بھی ادا کرے۔
الشیخ رائد صلاح اپنی اس ممتاز حیثیت کے ساتھ قائم و دائم رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ کشمکش کا باریکی سے مطالعہ کیا جائے اور ان کے طریقے کو آگے بڑھاتے ہوئے صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت کے لیے اپنایا جائے، یہاں تک کہ صہیونی ریاست قصہ پارینہ ہوجائے۔ ہر وہ فلسطینی جسے جیل میں ڈالا گیا یا اس کا تعاقب کیا گیا یہ پیغام دیتا ہے کہ اس کی وجہ سے صہیونی ریاست سخت پریشان ہوئی یا صہیونی ریاست کے زوال کو اس نے قریب کیا۔ وہ فلسطینی درست راستے پر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کامیاب تجربات کو دوسروں تک پہنچایا اور عبرت کے واقعات سے کچھ سیکھا؟۔