(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) امریکہ نے صیہونی حکومت کے بارے میں ماضی کی اپنی روایت سے کچھ ہٹ کر اعلان کیا ہے کہ اسرائیل میں دائیں بازو کی نئی کابینہ کی تشکیل سے مشرق وسطی کے امن کے عمل پر اسرائیل کے کاربند رہنے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں اسرائیل کی اندرونی پالیسی کے بارے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ واشنگٹن نے ایسی رپورٹوں کا مشاہدہ کیا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کی نئی کابینہ، اپنی تاریخ کی دائیں بازو کی اب تک کی سب سے زیادہ انتہا پسند کابینہ ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ،اسرائیل مائی ہوم، پارٹی کے سربراہ لایبرمین کا نام، جو سب سے زیادہ انتہا پسند لیڈر شمار ہوتے ہیں، اسرائیل کے وزیر جنگ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ مختلف انتہا پسند جماعتوں پر مشتمل مخلوط کابینہ میں لیبرمین کا نام شامل ہو جانے سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ صیہونی حکومت کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں مزید جارحیت اور انتہا پسندی کا مشاہدہ کیا جائے گا جس میں مشرق وسطی کے امن کے عمل میں فلسطینیوں کے مقابلے میں اس غاصب حکومت کی جانب سے مزید سخت مواقف اختیار کئے جانے کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ جبکہ صیہونی حکومت کی جاری جارحانہ پالیسیوں سے نہ صرف امن مذاکرات، تعطل کا شکار ہوئے ہیں بلکہ اس حکومت کے خلاف عالمی احتجاجات کا دائرہ بھی مزید وسیع ہوا ہے جس کے نتیجے میں غاصب صیہونی حکومت، عالمی سطح پر اور زیادہ الگ تھلک ہو کے رہ گئی ہے اور یہ بات عملی طور پر صیہونی حکومت کے حامی ملکوں خاص طور سے امریکہ کے لئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اپنی جارحانہ پالیسوں کو آگے بڑھانے میں صیہونی حکومت کی ہٹ دھرمی اور حامیوں کے بتائے ہوئے ایسے طریقوں پر عمل کرنے سے اس کا گریز کہ جن پر عالمی سطح پر سخت احتجاج نہیں کیا جائے گا، صیہونی حکومت اور اس کی حامی بعض یورپی حکومتوں کے درمیان تعلقات میں سرد مہری پیدا ہونے کا باعث بنا ہے۔ حالیہ مہینوں کے دوران بعض صیہونی حکام پر امریکی صدر بارک اوباما کی تنقید اور صیہونی حکومت اور بعض یورپی حکومتوں کے تعلقات میں آنے والی سرد مہری سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت اور اس کی حامی یورپی حکومتوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کا دور اب ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس مسئلے سے عالمی سطح پر اس غاصب حکومت کے بالکل الگ تھگ پڑجانے کی بابت خطرے کی گھنٹی ماضی سے کہیں زیادہ تیز آواز میں بج اٹھی ہے۔ صیہونی حکومت کا بڑھتا ہوا اندرونی بحران اور نیتن یاہو حکومت کے تقریبا ایک سال بعد بھی عالمی سطح پر صیہونی حکومت کے الگ تھلگ ہو جانے سے مقبوضہ فلسطین کی صورت حال، بہت زیادہ بحرانی ہو جانے اور نتن یاہو حکومت کی پوزیشن و کردار کہیں زیادہ کمزور پڑجانے کا پتہ چلتا ہے۔ نتن یاہو کو اپنی حکومت کی قانونی مدّت پوری کرنے کے لئے اپنی کابینہ میں دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ مقبوضہ فلسطین کی بیشتر جماعتیں خاص طور سے بڑی جماعتیں، نیتن یاہو کی کمزور اور انتہا پسند کابینہ میں شمولیت اختیار کرنے اور سیاسی نمائش میں حصہ لینے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہیں۔ نتن یاہو کی کابینہ نے تقریبا ایک سال قبل ایک سو بیس نشستوں پر مشتمل صیہونی پارلیمنٹ سے انسٹھ مخالف ووٹوں کے مقابلے میں صرف اکسٹھ اراکین سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا جس سے اس انتہا پسند کابینہ کے کہیں زیادہ کمزور واقع ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ اگرچہ کابینہ میں لیبرمین کے شامل ہو جانے سے اس کابینہ کو اب پارلیمنٹ کے چھیاسٹھ اراکین کی حمایت حاصل ہو جائے گی تاہم کابینہ کے کہیں زیادہ انتہا پسند ہونے کی وجہ سے صیہونی حکومت کو اندرونی طور پر مزید مسائل و مشکلات اور عالمی سطح پر اور زیادہ الگ تھلگ پڑجانے جیسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہرحال سماجی و اقتصادی نیز بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے مسائل کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت میں بڑھتے ہوئے اندرونی بحران سے عملی طور پر اس غاصب حکومت کی صورت حال کہیں زیادہ ابتر ہو گئی ہے جس سے اس حکومت کا مستقبل اور زیادہ تاریک ہو گیا ہے۔(بشکریہ:سحر نیوز)