تحریر: صابرابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
مسجد اقصیٰ قبلہ اوّل بیت المقدس کو انسٹھ سال بعد ایک مرتبہ پھر غاصب صیہونی اور جعلی ریاست اسرائیل کے احکامات پر مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے یہ سنہ1969ء کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہو ہے کہ قبلہ اوّل بیت المقدس کو فلسطینیوں کے لئے مکمل طور پر بند کیا گیا ہے، سنہ1969ء میں مسجد اقصیٰ کو صیہونی درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے باعث مسجد کے بڑے حصے کو شدید نقصان پہنچا تھا ، اس وقت بھی صیہونی احکامات پر مسجد اقصیٰ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا اور اب 14جولائی سنہ2017ء کو مسجد اقصیٰ پر صیہونی افواج کے ایک جارحانہ حملے کے بعد اسے ایک مرتبہ پھر مکمل طور پر بند کر دیا گیاہے ، واضح رہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا اور تین فلسطینیوں کو جو کہ نہتے تھے انہیں شہید کر دیا جبکہ اسرائیلی افواج کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی توہین بھی کی گئی جس پر فلسطینیوں نے شدید احتجاج کیا اور جھڑپوں میں دو اسرائیلی صیہونی فوجیوں کے بھی واصل جہنم ہونے کی اطلاعات آتی رہیں، بہر حال ان تمام حالات کے بعد اب مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس کہ جو خانہ کعبہ او ر روضہ رسول (ص) کے بعد مسلم دنیا کا تیسرا مقدس مقام ہے اسے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے اور فلسطینیوں کو داخلہ کی اجازت نہیں ہے۔جعلی ریاست اسرائیل کی فلسطینی سرزمین پر اپنے ناپاک قیام کے بعد سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح بیت المقدس پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کر لے اور اس کام کے لئے صیہونیوں نے نہ صرف مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی کر کے مسجد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی بلکہ سنہ1969ء میں جنونی صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ کو نذرآتش کر کے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے ۔
یہاں مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کے بارے میں مختصر اً یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ مسجد اقصیٰ ایک ایسا مقدس ترین مقام ہے کہ جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں (جوصیہونی نہیں ہیں) کے لئے بھی برابر ہی مقدس مقام ہے ، یہی وہ مقام ہے کہ جہاں خدا وند کریم کی طرف سے بھیجے گئے ایک لاکھ چالیس انبیائے کرام کی آمد کا سلسلہ رہا اور کسی نہ کسی حوالے سے انبیائے کرام کے قدم مبارک اس سرزمین پر پہنچے، اسی طرح اس مقام کی فضیلت میں ایک یہ بھی ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے سردار یعنی سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کو شب معراج مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لایا گیا تھا جہاں پر آپ (ص) نے نماز کی امامت فرمائی اور آپ (ص) کی اقتداء میں تمام انبیائے کرام کی ارواح مقدسہ نے نماز ادا کی۔پھراسی مقام سے خداوند کریم نے آپ کو عرش معلی کی طرف سفر کروایا۔ اس مقام کے فضائل کے بارے میں مزید باتوں کو تحریر کیا جا سکتا ہے لیکں فی الحال اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور موضوع کی طرف آتے ہیں۔
چودہ جولائی سنہ2017ء کو اسرائیلی افواج کا بیت المقدس پر حملہ اور معصوم فلسطینیوں کو شہید کرنا اور پھر مسجد کو مکمل طور پر بند کر دینا دراصل ایک کے بعد ایک بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی کھلی مثالیں ہیں، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے دنیا کے ہر فرد کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہوں میں آزادی کے ساتھ عبادت کرے اور آمد و رفت رکھے لیکن یہ واحد سرزمین فلسطین ہے کہ جہاں اسرائیلی مظالم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے باعث مسلسل ستر برس سے فلسطینیوں کے تمام بنیادی حقوق پائمال ہوتے آئے ہیں کیونکہ فلسطین نہ تو فرانس ہے، نہ جرمنی ہے اور نہ ہی اٹلی و لند ن اور نہ ہی امریکا و یورپ کا کوئی حصہ ہے بلکہ فلسطین مغربی ایشیاء کا دل ہے کہ جس پر غاصب اسرائیل جیسا زہریلا خنجر وارد کیا گیا ہے، فلسطین میں بسنے والے انسان بھی شاید امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کے انسانوں سے بہت زیادہ مختلف ہیں کیونکہ امریکا ، برطانیہ یا کسی یورپی ملک میں کوئی نفسیاتی مریض اپنی دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے لوگوں کو جبر و تشدد یا پھر کسی اور طرح سے نقصان پہنچانے کی کاروائی عمل میں لائے تو پوری دنیامیں ایسے واویلا مچایا جاتا ہے کہ قیامت ہی بپا ہو گئی ہواور انسانیت برباد ہو گئی لیکن فلسطین میں انسانیت کے معیار بدل جاتے ہیں نہ ہی اقوام متحدہ کو انسانیت یاد رہتی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے نام پر بنائی جانے والی عالمی تنظیموں کو احساس ہو پاتا ہے کہ فلسطین میں بسنے والے بھی انسان ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ فلسطین میں بسنے والے انسان شاید اسرائیل کے پھول برساتے ٹینکوں کے سامنے زبردستی آ جاتے ہیں اور ان ٹینکوں میں گولہ بارود بھر کر اپنے آپ کے اوپر برسانے لگتے ہیں یا پھر شاید فلسطینی معصوم بچوں کے جسم پر بھی اڑنے والے پر لگے ہوئے ہیں جو اسرائیلی میزائلوں کے سامنے ہوا میں اڑ کر اپنے آپ کو خو دکشی کا شکارکرتے ہیں یا پھر شاید ایسا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے گھروں کی چھتیں پسند ہی نہیں ہیں اور وہ اپنے گھروں کو خود ہی توڑ پھوڑ کر برباد کر رہے ہیں ، جبکہ اسرائیل تو بالکل ہی معصوم ہے اور کچھ کرہی نہیں رہاہے۔
مورخہ14جولائی بروز جمعہ کو بھی مسجد اقصیٰ کے صحن میں دیکھا گیا کہ تین اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی جوان کے جسم میں گولیاں نہیں اتار رہے تھے بلکہ وہ فلسطین جوان خود زبردستی اپنے جسم میں اسرائیلی بندوقوں سے گولیاں اتار رہاتھا ، بہر حال عالمی برادری کی بے حسی کو جھنجھوڑنے کے لئے میرے پاس جو شائستہ الفاظ ہیں میں نے ان کا استعمال کیا ہے کہ شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ قبلہ اوّل بیت المقدس مسلسل صیہونی سازشوں کے نشانے پر ہے، آئے روز فلسطین میں معصوموں کا قتل عام ہو رہاہے لیکن دوسری طرف امریکا اورا س کی ناجائز اولاد اسرائیل نے دنیا کے تمام مسلمان ممالک کو داعش او ر دیگر سیاسی مسائل میں ایسا الجھا رکھا ہے کہ اب ان مسلمان حکمرانوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں اب مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اگر فکر لاحق ہے تو صرف اور صرف یہ ہے کہ سعودی عرب کس طرح ایران پر کنٹرول کرے؟ سعود ی عرب ، اماراتی اور بحرین سمیت دیگر عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر کس طرح قطر کو غیر مستحکم کرے، یا پھر قطر کے بعد ہر اس مسلمان ملک کی کلاس لی جائے کہ جو ایران اور قطر سمیت فلسطین کی حمایت میں آگے آگے ہو۔یہ یقیناً مسلم دنیا کی بد ترین صورتحال ہے کہ امریکی چال بازیوں میں پھنس کر مسلم دنیا کے حکمران اپنے اصل مقاصد اور ترجیحات کو پس پشت رکھنا چاہتے ہیں اور ان کی اس غفلت اور لا پرواہی اور خیانت کاری کے رویوں کے نتیجہ میں مسجد اقصیٰ کو صیہونیوں کی جانب سے بند کر دیا جاتا ہے اور قبلہ اوّل کے امام نماز کو بھی صیہونی گرفتار کر لیتے ہیں لیکن مسلم امہ کی سربراہی کانفرنس کرنے والے اور مسلم دنیا کے ملٹر ی الائنس بنانے والے سعودی عرب کے حکمرانوں کی زبانوں سے ایک مذمتی بیان بھی سامنے نہیں آتا ہے تو پھر ایسے اسلامی ملٹری الائنس کا کیا فائدہ ہے کہ جس کے قیام کے بعد بھی صیہونی ہمارے قبلہ اوّل پر یلغار رکھے ہوئے ہیں، کشمیر اور بھارت میں ہمارے مسلمان بھائی بہن مذہبی آزادی سے دور ہیں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور امریکی و اسرائیلی ناپاک عزائم کو سمجھنا ہو گا کہ امریکا اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل یہی چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان ممالک آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیں اور صیہونیوں کی اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی بد قسمتی سے مسلم دنیا کے حکمران ہی استعمال ہو رہے ہیں۔