تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
مسئلہ فلسطین تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسے فیصلہ کن مرحلہ سے گزر رہاہے کہ جہاں اب اس بات کا فیصلہ ہونا ہے کہ آیا فلسطین غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے شکنجہ سے آزاد ہو کر رہے گا۔ دوسری طرف دشمن یعنی غاصب و جعلی ریاست اسرائیل اور اس کی سرپرست حکومت امریکہ اور حواریوں کی کوشش ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے فلسطین کو فلسطینیوں سے لا تعلق کر دیں اور پورا فلسطین غاصب صیہونیوں کی جاگیر بنا دیا جائے جیسا کہ انہوں نے پہلی عالمی جنگ کے بعد سے اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کیا تھا اور آخر کار عالمی استعماری قوتوں کی سرپرستی میں عالم اسلام کے قلب ’’فلسطین‘‘ پر ایک غاصب اور جعلی صیہونی ریاست اسرائیل کو وجود دینے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ چونکہ صیہونیوں کا ہمیشہ سے خواب رہاہے کہ عظیم تر اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جائے اور جس کی سرحدین نیل و فرات کو عبور کرتی ہوئی مکہ و مدینہ تک جاتی ہوں۔اس ناپاک مقصد کے لئے صیہونیوں نے نہ صرف فلسطین پرقبضہ جمایا بلکہ فلسطینی قوم کا قتل عام کرنے کے ساتھ خطے بھر میں اقوام کو دہشت گردانہ اور سفاکانہ جنگوں کا نشانہ بنایا اور بعض اوقات دہشت گرد گروہوں کو پیدا کر کے اندرونی طور پر ان اقوام اور ان کے ممالک کو کمزور کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں۔حالیہ ادوار میں اس بات کی مثالیں عراق، شام، لبنان اور فلسطین سمیت افغانستان، پاکستان کی حکومتیں اورافریقی ممالک و علاقے ہیں کہ جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے صیہونیوں نے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ان علاقوں میں مختلف ناموں سے دہشت گرد گروہوں کو جنم دے کر ان کی مالی ومسلح معاونت کر کے ان اقوام اور ممالک کو نابود کرنے اور کمزور کرنے سمیت ان علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔حالیہ دور میں جہاں ایک طرف غاصب و جعلی ریاست اسرائیل کے سرپرست و آقا امریکہ نے پورے خطے کو اسرائیل کی سیکورٹی کی خاطر قتل گاہ بنا ڈالا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ ایسے فیصلہ جات بھی کئے ہیں کہ جس سے دنیا کو یہ باور کروانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے کہ فلسطین اب صیہونیوں سے تعلق رکھتا ہے اور فلسطینیوں کا اس سے کوئی تعلق باقی نہیں رہاہے ، لیکن جیسا کہ لکھا گیا ہے کہ ناکام کوشش تو یقیناًیہ کوشش ناکام ہی ہے، کیونکہ جب امریکہ نے امریکی سفارتخانہ کو فلسطین کے تاریخی دارلحکومت یروشلم میں منتقل کرنے کی بات کی اور اعلان کیا تو اقوام متحدہ میں ایک سو اکتیس سے زائد ممالک نے اس اعلان کو مسترد کر دیا یعنی پوری دنیا امریکی فیصلہ کو مسترد کر کے یہ اعلان کر چکی ہے کہ یروشلم شہر (القدس) فلسطین کا ہی ابدی دارلحکومت تھا ، ہے اور رہے گا۔یہ امریکہ کی یقینی طور پر بہت بڑی شکست تھی کہ جس میں عالمی برادری کا اہم کردار رہاہے۔
ایک طرف فیصلہ کن مراحل میں ہونے والے فیصلوں کو عالمی برادری مسترد کر چکی ہے تو دوسری طرف فلسطین کے اصل باشندے اور قوم ہے کہ جس نے فلسطینی سرزمین کے تاریخی دن یعنی ’’یوم الارض ‘‘ کے دن سے امریکی فیصلہ کے خلاف قیام کیا ہے اور جد وجہد کا نیا انداز اپناتے ہوئے فلسطین میں تیسری تحریک انتفاضہ کو جنم دیا ہے جو مسلسل تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور نہ صرف فلسطین کے مغربی علاقے میں بلکہ بارہ سال سے صیہونیوں کے محاصرے میں جکڑے ہوئے علاقے غزہ کی پٹی سے بھی تحریک جاری و ساری ہے۔تیسری تحریک انتفاضہ کا عنوان ’’فلسطینیوں کا حق واپسی‘‘ ہے یعنی ہم اس تحریک کو فلسطینی عوام کے حق واپسی کی تحریک کا عنوان بھی سمجھ سکتے ہیں جبکہ انگریزی میں اس تحریک کو ’’Great Return March‘‘کا عنوان دیا گیا ہے۔غاصب صیہونی ریاست اسرائیل فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک اور مارچ کے سامنے بے بس ہو چکی ہے ، ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈے فلسطینی بہادر جوانوں اور ماؤں کے سامنے ناکام ہو چکے ہیں، نوجوانوں اور بچوں سمیت بزرگوں نے اس تحریک میں مزید جان ڈال دی ہے،ایسی مائیں بھی اس احتجاج میں شریک ہیں کہ جو شیر خوار بچوں کے ہمراہ غاصب صیہونیوں کے مقابلہ پر صف اول میں نظر آتی ہیں۔
تیس مارچ سنہ2018ء کے دن سے شروع ہونے والا فلسطینیوں کا انتفاضہ حق واپسی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کر رہاہے اور ہر آنے والا دن احتجاج کے عنوان سے مزید طاقتور اور حوصلہ بخش احتجاج کے ساتھ گزر رہاہے ۔تا دم تحریر فلسطینیوں کی اس مجاہدانہ حق واپسی کی تحریک اور احتجاج کو روکنے کے لئے غاصب صیہونی جعلی ریاست اسرائیل ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے اور قتل و غارت گری سمیت گرفتاریوں اور دیگر حربوں کا استعمال کر چکی ہے ، اب تک دو سو سے زائد فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں ، دس ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، درجنوں کو لاپتہ کیا گیا، گرفتاریاں کی گئیں، نہ جانے کس کس طرح کے ظلم روا رکھ کر فلسطینیوں کو مجبور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے حقوق کی تحریک سے دستبردار ہو جائیں لیکن سلام ہے ملت عظیم فلسطین پر کہ جس نے مجاہدانہ روش کو اختیار کر رکھا ہے کہ اور مسلسل چھ ماہ سے حق واپسی تحریک علم بلند کر رکھا ہے۔
فلسطینیوں کا حق واپسی فلسطینی عوام کا ایک ایسا بنیادی حق ہے کہ جس کے باعث ہی فلسطین کے مسئلہ کے صحیح اور منصفانہ حل پیش کیا جا سکتاہے کیونکہ فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے وقت صیہونیوں نے فلسطینیوں کو جبری طور پر نکال باہر کیا تھا، لاکھوں فلسطینی مہاجرین بن گئے تھے اس کے بعد رفتہ رفتہ مزید فلسطینیوں کو نکالا جاتا رہا اور علاقے کی آبادیاتی تناسب کو تبدیل رک کے اسرائیل چاہتا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو بے دخل کر دے گا لیکن مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل فیصلہ کن مراحل کے دور میں صرف اور صرف فلسطینیوں کے حق واپسی پر آ کھڑا ہو اہے۔
سنہ1948ء اور اس کے بعد جلا وطن ہونے والے فلسطینی اور ان کی اگلی نسلیں آج اپنے حق واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہی حق واپسی ہی ہے جو نہ صرف فلسطین کی آزادی تک جاتا ہے بلکہ اسرائیل کی نابودی کے تابوت میں آخری کیل کی مانند بھی ہے،کیونکہ اب فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جلا وطن کئے گئے فلسطینی اپنے وطن آنے دئیے جائیں اور پھر ایک ریفرنڈم کیا جائے جس میں یہ طے پایا جائے کہ آیااس خطے کا نام فلسطین ہے یا اسرائیل اور اس کے بعد یہ فیصلہ کرنے کا حق بھی فلسطین کے ابدی باشندوں اور ان کی نسلوں کو ہے کہ فلسطین میں حکومت کس طرز کی اور کس کی ہو گی ، یہ سب عمل فلسطینیوں کے حق واپسی کی حمایت کے نتیجہ میں فلسطینیوں کی اپنے وطن واپسی کے بعد ہی ممکن ہے ، اسی طرح جب فلسطینی عرب ریفرنڈم کے ذریعہ یہ طے کر چکے ہوں کہ سرزمین فلسطین ہے اور حکومت کے لئے رائے شماری کر چکے ہوں تو پھر یہ فلسطینیوں کا اختیار ہے کہ وہ فلسطین کی سرزمین پر دوسرے ممالک سے ہجرت کر کے لائے جانے والے صیہونی باشندوں کو فلسطین میں اس شرط کے ساتھ باقی رہنے دیں کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہوں اور فلسطینی باشندے کہلائیں ، یا پھر یہ کہ فلسطینی عوام ان صیہونیوں کو کہہ دیں کہ وہ اپنے اپنے وطن میں واپس چلے جائیں کہ جہاں سے ان کو عالمی سامراجی طاقتوں نے ایک ناپاک اور شیطانی منصوبہ بندی کے تحت فلسطین میں لا کر آباد و قابض و غاصب بنایا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک دن بدن طاقت پکڑتی جا رہی ہے اور ایسے حالات میں مسلم دنیا کی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک حق واپسی کی بھرپور پشتبانی کریں اور اسرائیل کو مجبور کریں کہ وہ فلسطینیوں کی سرزمین فلسطینیوں کو واپس کر دے ۔حکومت پاکستان جو کہ تازہ تازہ تشکیل پائی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو اپنا آئیڈیل اور ہیرو قرار دیتے ہیں اسی طرح کے ان کی طرح عمل کرتے ہوئے قائد کے اس فرمان کی پیروی کریں کہ جب انہوں نے فلسطین پر صیہونی تسلط کی پیشن گوئی کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ برصغیر کے مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ ہیں اور فلسطین پر صیہونیوں کے تسلط اور کسی بھی قسم کے قبضہ پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔