تحریر: صابر ابو مریمÂ
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
aparthiedافریقی لفظ ہے اس کا معنی جدائی ہے۔ یہ لفظ سیاسی اصطلاح میں نسلی اختلاف کے لیے استعمال ہوتا ہے۔جنوبی افریقہ میں عوامی پارٹی کے دور میں تقریباً ۱۹۱۰ سے لے کر بیسویں صدی کے آخر تک یہ لفظ جنوبی افریقہ کے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس تاریخی ستم کے بارے میں ہم مختصر کہیں گے کہ،جنوبی افریقہ کا ملک اپنے جغرافیہ کے اعتبار سے بہت اہم رہا ہے اور قدرتی ذخائر کے لحاظ سے مالا مال ہے۔ اس کی مٹی زرخیز ہونے کے علاوہ اس میں بہت ساری کانیں پائی جاتی ہیں۔ ان کانوں میں سونے، ہیرے، اورینیم، چاندی، مینگنز، لوہے، کروم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ قدرتی خزانے گزشتہ تین چار صدیوں سے یورپی حرص و لالچ کا شکار ہیں۔سن 1884ء میں پرتغالی شخص دیاش پہلا یورپی تھا جس نے جنوبی افریقہ کا سفر کیا۔ ۱۶۵۲ میں ہالینڈ کی کمپنی ’’ایسٹ انڈیا‘‘ کے ذریعہ ’’دماغہ امید نیک‘‘ میں پہلی سفید پوست مہاجروں کی بستی آباد ہوئی۔ ۱۸۴۱ میں ایک انقلاب کے ذریعہ جنوبی افریقہ میں موجود مہاجر اور برطانوی سامراج اس پر حاکم ہوگیا اور وہ اپنی مہاجر بستیاں تعمیر کرنے لگے۔انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ترانسوال علاقے میں سونا کشف ہوا۔ اورانڑ میں ہیرے کی کان ملی۔ اس موقعہ پر بہت سے یورپی بالخصوص یہودی جنوبی افریقہ پہنچنا شروع ہوگئے۔ انہوں نے وہاں پہلے سے مقیم ہالینڈیوں کے ساتھ جنگیں شروع کر دیں۔ 1899ء سے 1902ء تک لڑائیوں کے بعد ہر جگہ برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ سارے سفید پوست مل کر بھی کل آبادی کا پانچواں حصہ بنتے تھے اور باقی چار حصے افریقی کالے اور ہندی وغیرہ تھے۔
۱۹۱۰ میں برطانیہ نے جنوبی افریقہ اتحاد بنایا۔ اس میں انہوں نے بوئروں کے لیے حقوق کو تسلیم کیا۔ انہوں نے دو جماعتیں بنائیں۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد ’’عوامی جماعت‘‘ کی کامیابی کے بعد سفید پوست کی طرف سے کالوں کے خلاف نسل و رنگ کا تعصب سر چڑھ کر بولنے لگا۔ ملان، سترایدوم، فروورد نسلوں نے آپارتاید قانون کو استعمال کرتے ہوئے کالوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے شروع کر دیے۔ 1959ء میں اس نسل پرست حکومت نے وہ ظلم ڈھائے کہ اقوام متحدہ بھی بول اٹھا اور اس نے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف اظہار افسوس کیا۔
دوسری طرف ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سیاہ پوست مسلمانوں نے آزادی کی تحریک شروع کی۔ یہاں تک کہ جنوبی افریقہ کے سرمایہ دار اور سیاسی رہنماخطرہ محسوس کرنے لگے۔ انہوں نے سیاسی حکمت عملی کے تحت نسلی نظام کے خاتمہ کی حمایت کر دی اور اس شرط پر کہ اسلام کا نام نہ لیا جائے نیز تمام کانیں، سونے چاندی اور ہیروں کی دولت یہودیوں کے اختیار میں رہے، سیاہ پوست حکومت کے لیے آمادہ ہوگئے اور انہیں برسر اقتدار لے آئے۔ جنوبی افریقہ میں یہودیوں کا کردار 1652ء سے شروع ہوتا ہے جوکہ ہالینڈی کمپنی ’’ایسٹ انڈیا‘‘ کے حصہ دار تھے۔ وہ سفاردی یہودی دولت مند تھے۔ اس کمپنی کے پروٹیسٹ عیسائی حصہ داروں کے درمیان بھی مارانو یہودی پائے جاتے تھے۔ 1803ء میں فرانس، جرمنی اور برطانیہ سے مزید یہودی وہاں پہنچے جو اپنے دین کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بات کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں جرمنی، لہستان اور لتھوان سے بڑی تعداد میں یہودی جنوبی افریقہ رہائش کے لیے پہنچ گئے۔ آہستہ آہستہ یہودی آپس میں منظم ہوگئے اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔ 1880ء میں یہودیوں کی تعداد 4000تھی، 1904ء میں83000 ہوگئی، یعنی سفید پوست کی کل آبادی کا تین چوتھائی ہوگئے۔ 1936ء میں یہ تعداد 90000 تک پہنچ گئی یعنی سفید پوست کل آبادی میں 4/5 ہوگئے۔ 1989ء تک یہودیوں کی آبادی ایک لاکھ بیس ہزار افراد پر مشتمل تھی۔مختلف ادوار میں یہودیوں کا جنوبی افریقہ جانا، آپس میں رابطہ رکھنا، مختلف واقعات کے دوران رابطے میں رہنا نیز اسرائیل کے لیے جدوجہد کرنے کی تفصیلات ’’دائرہ المعارف المسیری‘‘ میں موجود ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے پہلے جو لوگ سونے اور ہیروں کو کانوں سے نکالنے، ان کی صفائی اور تجارت کرنے میں کامیاب ہوئے، یہی یہودی تھے۔ اسرائیل کے آغاز میں صہیونی حکومت کی درآمد کا گیارہ فیصد حصہ جنوبی افریقہ سے ہیروں کے یہودی تاجر بھیجا کرتے تھے۔عبد الوہاب المسیری اس کے باوجود کہ کتاب دائرہ المعارف میں کوشش کرتا ہے کہ یہودیوں کا ذکر بہت ہی نرم انداز میں کرے لیکن وہ بھی مندرجہ ذیل بعض باتوں کو نقل کیے بغیر نہیں رہ سکا:
’’یہودی ترجیح دیتے ہیں کہ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے کی بجائے خاموش رہیں۔ تیس کی دہائی میں یہودیوں نے ہندیوں کے خلاف نسل پرستانہ موقف اختیار کیا۔ دوسری جانب آج بھی کالوں اور سفید پوست لوگوں کے بارے میں اْن کے موقف میں کوئی اصولی فرق نہیں۔ اس بنا پر 1957ء میں جب قانون پاس ہوا کہ ایک جگہ پر کالے اور سفید پوست لوگ اکٹھے نہیں ہوسکتے حتی چرچ میں بھی، تو اس موقعہ پر بھی یہودیوں کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی۔ جبکہ اکثر انگلیکان، کیتھولک، پروٹسٹ اور چرچوں کے سربراہ اہل علم حضرات نیز اصلاح طلب ہالینڈی افراد نے اس قانون کی مخالفت کی تھی۔ لیکن یہودی علما میں سے کسی نے بھی اظہار خیال نہ کیا۔ کیونکہ جنوبی افریقہ میں کوئی یہودی کالا نہیں تھا یا ایشیائی اور رنگین پوست نہیں تھا۔ اس وجہ سے یہ معاملہ ان سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ شارپویل کے قتل عام میں بھی یہودی اپنی اسی حکمت عملی پر باقی رہے۔ لیکن یہودیوں کا یہ رویہ ان کے دیگر سیاسی طرز عمل کے ساتھ تضاد رکھتا تھا۔ مثال کے طور پر یہودی نمائندے کیمونیزم کے مخالف تھے۔ سیاہ پوست کی طرف سے کیے جانے والے احتجاج کو فساد قرار دیتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی حکومت، صہیونزم اور اسرائیل کے ساتھ وفاداری کرتے ہیں نیز ان کے لیے واضح سیاسی موقف اختیار کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ صیہونیوں نے ہمیشہ نسل پرستی کی بنیاد کو پروان چڑھایا اور اس کے نتیجہ میں بالآخر برطانوی سامراج اور امریکی شیطان کی حمایت سے فلسطین پر ایک ناجائز اور جعلی ریاست ’’اسرائیل‘‘ بنانے میں کامیاب ہوئے ، درا صل غاصب صیہونی ریاست کا قیام نسل پرستی کی بنیاد کا ہی نتیجہ تھا جس کے بعد سے آج تک ستر سال بیت جانے کے باوجود بھی صیہونیوں نے اپنی بنیاد یعنی نسل پرستی کو ترک نہیں کیا ہے اور اسی بنیاد پر فلسطین میں نہ صرف ناجائز قبضہ قائم کئے ہوئے ہیں بلکہ صیہونیوں کے فلسطینی عربوں کے خلاف اٹھائے جانے والے تمام تر اقدامات میں نسل پرستی کی جھلک ہی نہیں بلکہ پورا عکس ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں ایک طرف صیہونیوں نے عرب فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا ہو اہے وہاں ساتھ ہی ساتھ مقبوضہ فلسطین میں موجود سیاہ پوست یہودیوں کو کہ جو صیہونیوں کے نظریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں ان کو بھی نسل پرستانہ اقدامات کا سامنا ہے۔حالیہ دنوں میں ہی اسرائیلی جعلی ریاست نے اپنی کھوکھلی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی ایک اور ناکام کوشش کی ہے اور غاصب ریاست کا نسل پرستانہ قانون متعارف کرواتے ہوئے اسے نام نہاد کینسٹ سے منظور کروا کر خود اپنے نسل پرست اور غاصب ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے۔ مقالہ کے پہلے حصہ میں ہم نے نسل پرستی کی مختصر تاریخ کے ساتھ ساتھ صیہونیوں کی اس کے ساتھ رشتہ اور تعلق کو بیان کیا ہے جبکہ مقالہ کے دوسرے حصہ میں حالیہ دنوں میں غاصب جعلی ریاست اسرائیل کی جانب سے صیہونیوں کے نسل پرستانہ قانون کے منظور کئے جانے کے نقاط اور تفصیل کو پیش کریں گے۔ (جاری ہے۔۔)