’تل الزعتر‘ پناہ گزین کیمپ پر لبنانی ملیشیا کی جانب سے مسلط کردہ قیامت کے احوال پر مبنی ایک رپورٹ پر روشنی ڈالی ہے۔
تل الزعتر پناہ گزین کیمپ کا قیام سنہ 1949ء میں عمل میں لایا گیا۔ سنہ 1976ء کو اس کیمپ میں 20 ہزار فلسطینی مہاجرین موجود تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب لبنان بدترین خانہ جنگی سے گذر رہا تھا۔ جون کے اوائل سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کا سلسلہ 12 اگست 1976ء تک جاری و ساری رہا۔ اس دوران کیمپ کا محاصرہ کرتے ہی اس پر بمبوں کی بارش شروع کر دی۔ تقریباً 50 دنوں کے دوران 55 ہزار بم اس کیمپ پر گرائے گئے۔ یومایہ ایک ہزار سے زائد بموں سے کیمپ میں کشت وخون کیا جاتا اور ہر روز کیمپ میں ایک نئی قیامت برپا ہوتی تھی۔
اگرچہ کیمپ کے بیرونی حصوں میں فلسطینی اور مقامی مزاحمتی گروپوں کی جانب سے محاصرہ کرتے ہوئے حملہ آور ملیشیا کو اندر داخل ہونے سے روک دیا تھا جس پر حملہ آوروں نے کیمپ کا پانی، خوراک کی رسد اور دیگر سہولیات کی فراہمی روک دی۔ توپوں،’ٹی 54‘ نامی خون آشام روسی اور ’سپر شیرمین‘ اسرائیلی ٹینکوں کے منہ کیمپ کی طرف کر کے لگا تار گولہ باری شروع کر دی گئی۔ دن رات جاری گولہ باری اور بمباری سے قتل عام اتنا ہو چکا کہ کیمپ کی سڑکیں انسانی لاشوں اور خون سے بھر گئیں۔
بمباری کے نتیجے میں 4280 بے گناہ فلسطینیوں کو نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ بمباری کے نتیجے میں کیمپ میں کوئی خیمہ اور مکان محفوظ نہ رہا۔ ہزاروں افراد گولہ باری کے نتیجے زخمی ہونے کے باعث ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔
تل الزعتر کیمپ کے بیشتر فلسطینی باشندوں کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ سنہ 1968ء میں کیمپ میں زرعی سرگرمیاں کمزور ہونا شروع ہوئیں اور کیمپ کے شمال مشرقی حصے میں چھوٹے چھوٹے کارخانے قائم کیے گئے۔
زراعت کے بجائے کیمپ میں صنعتی سرگرمیوں کے فروغ نے طرز زندگی بھی بدل دیا۔ آبادی میں اضافے نے لوگوں سوچ اور ضروریات کو بھی ایک نیا رنگ دیا۔ سنہ 1950ء میں اس کیمپ میں 400 افراد آباد ہوئے اور سنہ 1955ء میں ان کی تعداد 3 ہزار، 1960ء میں 6600 اور 1970/71ء میں 13 ہزار 100 تک جا پہنچی۔ سنہ 1972ء میں 14200 اور سنہ 1976ء میں اس کیمپ کی فلسطینی آبادی 20 ہزار اور لبنانی آبادی 10 ہزار تھی۔
قتل عام اور ناکہ بندی
جنوری 1976ء کو لبنان میں خانہ جنگی کے دوران تل الزعتر پناہ گزین کیمپ کا عملی محاصرہ شروع ہوا۔ آغاز میں اس محاصرے میں لبنان کی دائیں بازوں کی ملیشیاؤں نے حصہ لیا۔ انہوں نے اپنے مخالف’النمور‘ گروپ کے خلاف حملے شروع کر دیے۔ النمور گروپ کے کچھ لوگ اس کیمپ میں بھی موجود تھے مگر مخالف ملیشیا کی طرف سے کیمپ کے ہزاروں باشندوں کو یرغمال بنا دیا گیا۔ النمور میشیا کمیل شمعون کے ماتحت ایک عسکری گروپ تھا۔ 20 جون کو دائیں بازو کی ملیشیاؤں نے پاشاپ اور النبعہ کے اطراف سے کیمپ پر چڑھائی کر دی۔
نمور الاحرار اور ان کے سربراہ کمیل شمعون کے علاوہ بیار الجمیل کے لبنانی بریگیڈ، حرس الارز اور الشبینہ گروپ کے عناصر بھی مقامی آبادی پر چڑھائی میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے مل کر اس کیمپ کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور صہیونی فوج کے ہمراہ 55000 ہزار گولوں سے کیمپ کو خاک وخون میں ڈبو دیا گیا۔
پہلے روز قریبا 5000 گولے کیمپ پر داغے گئے جس کے نتیجے میں کیمپ کے 70 فی صد مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
یکم جولائی کو فلسطینی تنظیموں نے تل الزعتر کیمپ کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کی مگر علاقائی قوتوں کی جانب سے مداخلت کے باعث فلسطینی کیمپ کا محاصرہ نہ توڑ سکے البتہ کیمپ میں گولہ باری رکوا دی گئی۔
وسط جولائی کو 75 فدائی کیمپ میں داخل ہوئے اور وہ اپنے ساتھ کیمپ میں 100 ’آر پی جی‘ ٹینک شکن بم لے جانے میں کامیاب رہے۔ چونکہ باہر سے حملہ آور گروپوں کی طرف سے کوئی خاص تعاون نہیں کیا گیا جس کی بنا پر کیمپ کے اندر موجود مزاحمت کار بھی کوئی اہم جوابی کارروائی نہ کر سکے۔
جون میں جب کیمپ کا محاصرہ کیا گیا اس وقت کیمپ کو فراہمی آب کے صرف تین ذرائع تھے۔ 14 جولائی تک پانی کی مرکزی پائپ لائن تباہ کر دی گئی۔ اس کےساتھ ہی گھات لگا کرکچھ لوگوں نے پانی کی لائن ٹھیک کرنے والے 25 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
کیمپ میں خوراک کی قلت، صفائی ستھرائی کے فقدان، قتل عام، خون خرابے، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی نے قحط اور فاقہ کشی کی کیفیت پیدا کر دی۔ بیماریوں نے ڈیرے ڈالے اور لوگوں کو علاج کی سہولتیں چھن جانے کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
12 جولائی حملہ آور ملیشیا نے کیمپ میں گھس کر 90 عام شہریوں کو مار ڈالا۔
21 جولائی کو کمیل شمعون ملیشیا نے 100 زخمیوں کو کیمپ سے باہر جانے کے روک دیا جس کے نتیجے میں بیشتر زخمی علاج کی سہولت نہ ملنے کے باعث دم توڑ گئے۔
24 جولائی کو ملیشیا نے تل الزعتر پر اسرائیل سے حاصل کردہ ’سپر شیرمین‘ ٹینکوں سے وحشیانہ گولہ باری کر کے 250 فلسطینیوں کو شہید اور درجنوں عمارتوں کو زمین بوس کر دیا۔
تین اگست کو مذاکرات کے بعد عالمی امدادی کارکنوں کو کیمپ میں داخل ہونے اور 334 زخمیوں اور 500 بچوں کو وہاں سے نکالنے کی راہ ہموار ہوئی۔
10 اگست ملیشیا کے حملوں میں کیمپ کو پانی کی فراہمی کا آخری ذریعہ بھی اس وقت بند ہو گیا جب آخری پائپ لائن بھی دھماکے سے تباہ کر دی گئی۔ اسی روز 3000 مکین کیمپ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اگلے دو روز میں 9000 سے 12000 لوگوں نے کیمپ سے نقل مکانی کی۔
کیمپ سے نقل مکانی کے دوران 3000 مرد و خواتین راستہ کھو جانے کے بعد گم ہو گئے تاہم بعد ازاں انہیں تلاش کر لیا گیا۔ اس دوران کیمپ کے اندر موجود دفاعی ملیشیا نے اپنے جنگجوؤں سے کہا کہ وہ بیروت میں وادی نہر کے راستے سے باہر نکلیں۔
12 اگست کو ریڈیو پر اعلان کیا گیا کہ کیمپ سے باہر نکلنے والے افراد پرحملے نہیں کیے جائیں گے۔ مگر اس اعلان کے باوجود 1000 سے 2000 افراد گولیاں مار کر شہید کر دیے گئے۔
اس کے بعد کیمپ میں بلڈوزر داخل کیے گئے جنہوں نے کیمپ کی صفائی شروع کی۔ تب معلوم ہوا کہ محاصرے اور گولہ باری کے دوران 4280 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
(بشکریہ :مرکزاطلاعات فلسطین)