تحریر: صابر ابو مریمÂÂ
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
Â
بیت المقدس کی تاریخ اور اہمیت سے متعلق ماضی میں لکھے گئے کئی مقالہ جات میں بیان کیا جاتا رہا ہے اور کوشش رہی ہے کہ قبلہ اوّل کی
اہمیت اور اس پر غاصب صیہونی شکنجہ سے متعلق عوام الناس اور قارئین کی خدمت میں اسرائیل کے ناپاک عزائم کو آشکار کیا جائے ، بہر حال مختصر یہ ہے کہ بیت المقدس جسے قبلہ اوّل کہا جاتا ہے یہ ایک ایسا مقدس ترین مقام ہے کہ جسے دور حاضر میں حرم خدا یعنی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی یعنی روضۂ رسول اکرم (ص) کے بعد بلافصل فضیلت حاصل ہے اور اسلام کے ان دو مقدسات کے بعد تیسرا مقدس مقام اگر کوئی ہے تو ہ یہ مسجد اقصیٰ ہے کہ اس سے متعلق روایات میں ملتا ہے کہ جن تین مقامات کی طرف سفر کرنے کی تلقین کی گئی ہے ان میں خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس ہیں۔ یہی وہ مقام مقدس ہے کہ جس کی طرف رخ کر کے پیغمبر اکرم (ص) ایک عرصہ تک عبادت انجام دیتے رہے اور جب خدا کا حکم آیا تو قبلہ رخ تبدیل کر لیا۔اس مقام کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ ا س بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خدا وند کریم کی طرف سے بھیجے گئے تمام انبیائے کرام (علیہم السلام) کے مقدس قدم اس سرزمین پر پہنچے ہیں اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ شب معراج کو جب پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی(ص) کو مسجد حرام سے لے جایا گیا تو سب سے پہلے آپ کی سواری نے مسجد اقصیٰ پر قیام کیا جس کے بعد آپ (ص) نے تمام انبیائے کرام(علیہم السلام) کی جماعت کی امامت فرمائی ۔
آج ستر سال کا عرصہ بیت جانے کو ہے اورانبیاء ؑ کی سرزمین پر ایک غاصب اور جعلی ریاست نے اپنا تسلط اس طرح قائم کر رکھا ہے کہ ان ستر سالوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزر رہا ہے کہ سرزمین انبیاءؑ یعنی فلسطین میں بسنے والوں کو اس جعلی ریاست اسرائیل کے ظلم و ستم کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، جب اس جعلی ریاست اسرائیل کو برطانوی اور امریکی سامراج کی ایماء وجود بخشا جا رہاتھا تو اس وقت سے ہی صیہونیوں نے فلسطینی عربوں پر ایسے بد ترین مظالم کا سلسلہ شروع کیا تھا کہ جس کی مثال شاید تاریخ میں نہیں ملتی ہے، نوجوانوں کو قید و بند کے سخت شکنجوں میں ڈالا جاتا تھا، خواتین کی عصمت دری اس طرح کی جاتی کہ انہیں برہنہ سڑکوں پر گھمایا جاتا ، بزرگ اور ضعیف العمر افراد کو بد ترین طریقوں سے موت کی نیند سلا یا جاتا، حتیٰ کہ معصوم بچوں کو قتل کرنے کے لئے پانی کی پائپ لائنوں میں زہریلے مواد ملا دئیے جاتے جس کے باعث فلسطینی عربوں کے گھروں میں کہرام بپا ہوتا تھا، لیکن ان تمام مظالم کو نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار ریاستوں بالخصوص امریکا اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک اور ان کی آلہ کار اقوام متحدہ خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی اور نتیجہ یہ نکلا کہ انبیائے کرام (علیہم السلام) کی مقدس سرزمین فلسطین پر ایک غاصب اور جعلی ریاست یعنی اسرائیل کا وجود قیام میں آیا۔
غاصب صیہونیوں نے جہاں ایک طرف فلسطینیوں کا قتل عام کیا وہاں ساتھ ہی ساتھ فلسطین میں موجود مقدس مقامات کو بھی اپنی درندگی کا نشانہ بنایا اور کئی ایک مقدس مقامات انبیاء ؑ کو مسمار کیا جا چکا ہے کئی ایک تاریخی مساجدکو بھی نقصان پہنچا یا گیا ہے، جبکہ سنہ1969ء میں قبلہ اول یعنی مسجد اقصیٰ کو نذ ر آتش کیا گیا جس کے باعث مسجد کے متعدد ستونوں کو نقصان پہنچا، اسی طرح کے واقعات اگر ہم دیکھیں تو دور حاضر میں ہمیں دہشت گرد گروہوں کی جانب سے بھی انجام پذیر ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ داعش، جبھۃ النصرۃ اور اسی طرح دیگر کئی ناموں سے کام کرنے والے دہشت گرد گروہ کہ جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کیا، سنہ2011ء سے سنہ2016ء تک شام و عراق میں انہی دہشت گرد گروہوں نے انبیائے کرام کے مقدس مقامات سمیت صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے مزارات مقدسات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور اسی طرح کی دہشت گردانہ کاروائیاں پاکستان میں بھی مقدس مقامات پر انجام پذیر ہوئیں ، جو دراصل اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ غاصب جعلی ریاست اسرائیل نے جس کا م کی ابتداء سرزمین فلسطین پر کی تھی اور اس کے نامکمل ایجنڈا کو مکمل کرنے کے لئے اب یہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے دہشت گرد گروہ کر رہے ہیں تا کہ ایک طرف اسلام کے خوبصورت چہرہ کو مسخ کریں اور دوسری طرف امت مسلمہ میں انتشار پھیلائیں اور جعلی ریاست اسرائیل کے تحفظ کا سامان فراہم کریں ، افسوس کی بات یہ ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کو مالی و مسلح معاونت جہاں ایک طرف امریکا و اسرائیل کر رہے ہیں وہاں خطے میں موجود چند ناعاقبت اندیش عرب و غیر عرب حکومتیں بھی شامل ہیں، جن میں سرفہرست سعودی عرب، قطر،عرب امارات،بحرین، اردن، ترکی اور دیگر کا نام شامل ہے تاہم موجودہ حالات میں کچھ آپس کے جھگڑوں کے باعث قطر اس صف سے باہر نکل آیا ہے لیکن ماضی کی تلخ تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ دنوں اب خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ ان دہشت گرد گروہوں کاشام اور عراق میں قلع قمع کیا جا چکا ہے جبکہ یہ گروہ دنیا کے دیگر خطوں میں پہنچائے جا چکے ہیں، جن میں آج کل افغانستان اور فلپائین سرفہرست ہیں، ٹھیک ایسے وقت میں کہ جب ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے تو خبریں یہ بھی آ رہی ہیں غاصب صیہونیوں نے دو ہفتے قبل قبلہ اوّل پر یلغار کی ہے کئی دن تک بیت المقدس کو نماز اور اذان پر پابندی عائد رکھی گئی ہے، فلسطینیوں نے غاصب صیہونیوں کے ان جارحانہ اقدامات کے خلاف بھرپور مزاحمت سے جواب دیا ہے اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے بڑا اجتماع بیت المقدس جمع ہو اجس پر اسرائیلی افواج نے اپنی درندگی کا مظاہرہ کیا، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی عرب جس میں مسلمان، عیسائی اور وہ یہودی شامل ہیں کہ جو صیہونزم کے پیروکار نہیں ہیں ، سب نے مل کر مشترکہ طور پر بیت المقدس کے دفاع کا عزم کر لیا ہے او ر یہ ٹھان لی ہے کہ غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے بیت المقدس کے خلاف جارحانہ اقدامات کے خلاف سینہ سپر رہیں گے ۔
بہر حال فلسطینیوں نے اپنا فریضہ ادا کیا ہے کہ قبلہ اوّل کے تحفظ کے لئے آہنی دیوار بن چکے ہیں، اب ایک اہم سوال یہ اٹھ رہاہے کہ غاصب اسرائیل کہ جس نے پہلے ہی گریٹر اسرائیل کا اعلان کر رکھا ہے اور اس گریٹر اسرائیل کے نقشوں کا مشاہدہ کریں تو اس میں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی(ص) بھی شامل ہے ، تو کیا اگر اب اسرائیل مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس کے بعد خانہ کعبہ اور مسجد نبوی(ص)تک اپنی رسائی بڑھاتا ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ وہ ریاستیں جو پہلے ہی اسرائیل کے پید اکئے گئے ناجائز بچوں یعنی داعش او ر النصرۃ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو دودھ پلانے میں مصروف عمل ہیں کیا وہ خانہ خدا اور حرم رسول اکرم(ص) کا دفاع کر پائیں گے؟ اسی طرح ایک سوال اور بھی ہے کہ جس طرح حالیہ دنوں میں بیت المقدس پر اسرائیلی حملوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں پر پوری مسلم دنیا کے حکمران چ سادھے رہے ہیں تو کیا خانہ کعبہ اور حرم نبوی(ص) پر اسرائیلی جارحانہ عزائم کے بعد بھی ایسی خاموشی طاری رہے گی؟کیونکہ قریب کی تاریخ ہمیں بتا رہی ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں توہین مسجد اقصیٰ کی ہو یا پھر شام اور عراق میں انبیائے کرام اور صحابہ کرام کے مزارات مقدسات کی توہین ہو یا پھر پاکستان میں اولیائے اللہ کے مزارات پر دہشت گرد ی کے واقعا ت ہوں ، یہ سب کی سب حکومتیں جو داعش اور النصرۃ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرست ہیں خاموش رہی ہیں اور ان کی خاموشی بتا رہی ہے کہ ان تمام جرائم میں ان کی رضا مندی شامل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسلم دنیا بالخصوس خلیجی دنیا اسرائیل کی کاسہ لیسی میں غرق ہو چکی ہے ، اپنی عزت و وقار کھو چکی ہے، اب چاہے یہ جعلی ریاست اسرائیل قبلہ اول بیت المقدس پر حملہ آور ہو یا خانہ خدا (کعبۃ اللہ) پر یا پھر اپنے گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لئے حرم نبوی(ص) پر حملہ آور ہو جائے ، ان عرب حکمرانوں کی خیانت کاریاںیہ بتا رہی ہیں کہ یہ امریکا جیسے شیطان کے غلام اور اسرائیل جیسے دہشت گردوں کے حامی ہیں ۔لیکن قرآن کہتا ہے ، جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ، ایک منصوبہ وہ ہے جو شیاطین مل کر بناتے ہیں اور ایک منصوبہ و ہ ہے جسے خداوند کریم بناتا ہے ، اور بے شک پھر حق اور حزب اللہ ہی غالب ہو گی ، باطل اور شیاطین کو شکست ہو گی اور یہ باطل تو ہے مٹنے کے لئے۔