تحریر: صابر ابو مریمÂ
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سنہ1917ء میں 2نومبر کو برطانوی استعمار کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے ایک اعلان نامہ حکومت برطانیہ کو لکھ بھیجا تھا جس میں فلسطین کو تقسیم کرنے کا کہا گیا تھا اور فلسطین پر بعد میں قائم ہونے والی ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل بھی اسی ’’اعلان بالفور‘‘ کے نتیجہ میں قائم ہوئی جس کی پشت پناہی شیطان بزرگ امریکہ سمیت اس وقت کی اقوام متحد ہ میں موجود امریکی غلامی کی سوچ رکھنے والی حکومتوں نے کی تھی۔اعلان بالفور کو اب ایک سو ایک سال بیت چکے ہیں اور فلسطین کے قضیہ کو بھی اسی طرح ایک صدی بیت چکی ہے جبکہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ تسلط ستر سالہ تاریخ رکھتا ہے، یعنی مسئلہ فلسطین ایک صدی سے حل طلب ہے اور اقوام عالم تاحال اس مسئلہ میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔جہاں عالمی برادری فلسطین کے مسئلہ میں فلسطینی قوم کو انصاف و حقوق کی فراہمی میں ناکام رہی ہے وہاں ساتھ ساتھ غاصب صیہونی جعلی ریاست اسرائیل کے بڑھتے ہوئے ظلم وستم اور جنگی جنون کو روکنے میں بھی ناکامی واضح ہے اور اس ناکامی کا سب سے بڑا سبب شیطان بزرگ امریکہ کی جانب سے غاصب جعلی ریاست اسرائیل کی پشت پناہی اور امداد کے نام پر اربوں ڈالر کا خطر ناک جنگی اسلحہ و سازو سامان جعلی ریاست اسرائیل کو فراہم کرنا ہے جس کو اسرائیل ہمیشہ سے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ خطے کی دوسری ریاستوں اور ان کے عوام کے خلاف جنگوں اور نت نئے طریقوں بالخصوص دہشت گرد گروہوں کو جنم دینے اور ان کی مدد کرنے کے ذریعہ انجام دیتا آیا ہے، خطہ کے حالیہ حالات اور موجودہ زمانہ کی بدنام زمانہ دہشت گرد سفاک گروہ بشمول داعش، القاعدہ و النصرۃ و دیگر اس کی منہ بولتی مثالیں ہیں۔اعلان بالفور جو آج سے ایک سو ایک سال قبل نافذ ہو ا جس کا مختصر خلاصہ کچھ یوں تھا کہ فلسطین کو بیچ ڈالو اور اسرائیل فلسطین پر قابض ہو جائے، دراصل اس وقت برطانوی استعمار فلسطین کی کفالت کے فرائض انجام دے رہا تھا تاہم یہی سوچ کر برطانوی استعمار نے فیصلہ کیا تھا کہ فلسطین بکاؤ مال ہے، لیکن اس وقت بھی یعنی ایک سو ایک سال قبل فلسطین کی با غیرت و با حمیت ملت نے عالمی شیطانی قوتوں کے اس منصوبہ اور فارمولہ کو کہ جس میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ فلسطین بکاؤ مال ہے ، شدت سے مسترد کر دیا تھا اور آج بھی ایک سو ایک سال گزر جانے کے بعد کہ جب فلسطینیوں کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے ، اس موجودہ نسل نے بھی اپنے اسلاف کی قربانیوں اور جد وجہد کو اسی جذبہ اور ہمت کے ساتھ جاری رکھا ہے کہ جس کا آغاز اعلان بالفور سے قبل اور بعد ہو اتھا۔
آج سنہ 2018ء میں کہ جب دنیا کا سب سے بڑا شیطان امریکہ فلسطین کے مسئلہ پر ایک سو سال کی تکمیل پر صدی کا منصوبہ متعارف کروا رہاہے جس میں فلسطینیوں کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ جعلی ریاست اسرائیل کے سامنے تسلیم ہوجائیں اور فلسطین کے دارلحکومت یروشلم شہر اور اس میں موجود مقدسات بالخصوص قبلہ اول بیت المقدس سے بھی دستبردار ہو جائیں تو امریکہ فلسطینیوں کو امن فراہم کر سکتا ہے اور اسرائیل کے ساتھ صلح صفائی کا معاملہ کیاجا سکتا ہے لیکن فلسطینیوں نے امریکی صدر کی جانب سے پیش کئے گئے اس خطر ناک اور غیر منصفانہ فارمولہ کہ جس کو صدی کی ڈیل کہا گیا ہے سختی سے مسترد کر دیا ہے ۔
برطانوی اعلان بالفور کے ایک سو سال بعد امریکی اعلان ٹرمپ دونوں ہی ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں ، ایک استعماری شیطان نے فلسطین پر ناجائز صیہونی ریاست قائم کرنے کی بنیاد رکھی تو شیطان بزرگ امریکہ جعلی ریاست اسرائیل کے تحفظ کے لئے فلسطین کی سودے بازی کرکے ایک سو سالہ ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سر توڑ کوششیں کر رہا ہے۔ چاہے بالفور اعلامیہ ہویا کہ ٹرمپ اعلامیہ (صدی کی ڈیل) فلسطین کے عرب اس کو مسترد کر چکے ہیں، نہ صرف فلسطین میں بسنے والے مسلمان عرب فلسطینی بلکہ عیسائی و ایسے یہودی فلسطینی بھی موجود ہیں جو صیہونیوں کے فلسطین پر تسلط کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے صیہونی آبادکاروں کا فلسطین کی سرزمین پر کوئی حق نہیں ہے۔
فلسطینیوں نے جس طرح ماضی میں بالفور اعلامیہ کو مسترد کیا اور اس کے خلاف متحد ہو کر مزاحمت کی آج ایک سو سال بعد ٹرمپ اعلامیہ یعنی صدی کے ڈیل کے خلاف بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں اور اپنے حقوق کی جنگ اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر لڑنے میں مصروف عمل ہیں، رواں سال فلسطینیوں کے یوم ارض فلسطین کے دن سے یعنی تیس مارچ کو شروع ہونے والی فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک دن بدن زور پکڑ رہی ہے جبکہ دو سو سے زائد فلسطینی اب تک جام شہادت نوش کر چکے ہیں لیکن مسلسل حق واپسی کے لئے مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں جو نہ صرف اسرائیل کی پریشانی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ خود امریکی منصوبوں کے خاک میں مل جانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ان مظاہروں اور حق واپسی کے نعروں میں گونجتا ہوا ایک منفرد اور زبردست قسم کا نعرہ ’’فلسطین بکاؤ مال نہیں ‘‘ بھی ہے جس نے نہ صرف پوری دنیا بلکہ شیطان بزرگ امریکہ اس کی ناجائز اولاد اسرائیل اور عرب دنیا میں موجود ان کے حواریوں اور غلاموں پر واضح کر دیا ہے کہ کوئی بھی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ فلسطین پر ہونے والی سودے بازی کو قبول کر لیا جائے گا ، ایسا نہ تو ایک سو سال قبل بالفور اعلامیہ کے وقت ہوا تھا اور نہ آج کے زمانہ میں ایسا ہونے دیا جائے گا۔
فلسطین عرب (مسلمان، عیسائی ، یہودی جو صیہونیوں کو مسترد کرتے ہیں) سب کے سب کا ایک ہی نعرہ ہے ، ’’دنیا جان لے، فلسطین بکاؤ مال نہیں !‘‘۔ فلسطینی قوم نے امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے سر نہ جھکانے کا اصولی اور شجاعت مندانہ فیصلہ کر لیا ہے جبکہ خطے کی عرب ریاستیں امریکی شیطان کے سامنے تسلیم خم ہو چکی ہیں اور ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی ناپاک سازشوں میں بھی مصروف عمل ہیں۔یہ فلسطینی قوم کا اعزاز ہے کہ اس نے بالفور اعلامیہ سے قبل اور اس کے بعد آج تک کبھی بھی اپنے اصولی مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔فلسطینی با غیرت و شجاع قوم نے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ نام نہاد امن تجویز ’صدی کی ڈیل‘کو ایک منحوس اسکیم قرار دیا ہے جو کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوگی۔آج شیطان بزرگ امریکہ دنیا کی تمام تر قوت اور ٹیکنالوجی کے باوجود پا برہنہ فلسطینی مجاہد ملت کے سامنے بے بس نظر آ رہاہے ۔جبکہ دوسری طرف فلسطینی قوم کی یکجہتی اور اتحاد کے سامنے صہیونی ، امریکی سازش پارہ پارہ ہورہی ہے۔
فلسطینیوں کی بے مثال جد وجہد نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے فلسطینی قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالاہے اور فلسطینیوں کو دباؤ میں لانے اور انہیں بلیک میل کرنے کی مجرمانہ پالیسی اپنارکھی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت حالیہ دنوں امریکہ میں موجود فلسطینی تنظیم پی ایل او کے دفاتر کو بند کرنے جیسے اقدامات اور اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے ورکس کی امداد کاٹنے جیسے اقدامات ہیں۔امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیاجو کہ خود امریکہ کی بے بسی اور شکست کو ظاہر کرتا ہے۔
فلسطینیوں نے شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے عرب حواریوں پر ایک بات واضح کر ڈالی ہے کہ فلسطین کوئی چیز نہیں کہ اسے نیلام کیا جائے اور ہر ایک اس کی بولی لگاتا پھرے۔ فلسطین دنیا کا سب سے بڑا حل طلب مسئلہ ہے۔ یہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک فلسطینی قوم کو بلا کم وکاست اس کے دیرینہ حقوق مل نہیں جاتے۔ القدس فلسطینی قوم کا اور فلسطین کا دارالحکومت ہے جس کا اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ القدس کے حوالے سے فلسطین کے مسلمان اور عیسائی سب ایک ہی صفحے پرہیں۔ فلسطینی عربوں نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے تک جدو جہد جاری رکھیں گے۔