گذشتہ 9 سال کے دوران مصر کے کسی اعلی حکومتی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ اسرائیل تھا۔ اس سے پہلے مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک نے اسحاق رابن کے قتل پر اظہار افسوس کرنے کیلئے کچھ گھنٹے کیلئے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ سابق مصری صدر حسنی مبارک کی کوشش تھی کہ وہ مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عمر سلیمان کے ذریعے اسرائیل سے رابطے میں رہیں تاکہ اسرائیل اور مصر کے تعلقات سیکورٹی امور تک ہی محدود رہیں۔ البتہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حسنی مبارک اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے حق میں نہیں تھے بلکہ وہ انور سادات اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے حقیقی وارث سمجھے جاتے تھے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں منطقی عمل یہ تھا کہ مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری یا حتی خود عبدالفتاح السیسی خرطوم اور چار افریقی ممالک یعنی یوگنڈا، روانڈا، کینیا اور ایتھوپیا (دریائے نیل کے کنارے ممالک) کا دورہ کرتے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کا حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دورہ کیا ہے۔ مصری حکام کو چاہئے تھا کہ ان ممالک کا دورہ کرتے ہوئے وہاں اسرائیلی اثرورسوخ کا مقابلہ کرتے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مصری حکام کا عمل منطقی تقاضوں سے بہت دور ہے۔
مصر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے افریقی ممالک کے دورے پر بہت پریشان دکھائی دیتا تھا۔ مصر کے بعض ذرائع ابلاغ پر تو اس پریشانی کا واضح اظہار بھی کیا گیا۔ مصر کے بعض لکھاریوں اور محب وطن شخصیات نے اسرائیلی وزیراعظم کے افریقی ممالک کے دورے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مصر کے خلاف سازش اور مصر کی سیاسی اور سمندری سلامتی کو متزلزل کرنے کی کوشش قرار دیا۔ اب اگر اسرائیلی حکام مصر کی اس پریشانی کو دور کرنے کے خواہاں تھے تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنا نمائندہ قاہرہ بھیجتے اور اسرائیلی وزیراعظم کے افریقی ممالک کے دورے کے بارے میں انہیں صحیح معلومات فراہم کرتے تاکہ یہ پریشانی دور کی جا سکے۔ لیکن جو کچھ رونما ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ ہم نے دیکھا کہ مصر کے وزیر خارجہ اسرائیل روانہ ہو گئے۔ یہ امر مصر اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ اسرائیلی حکام کے تکبر اور متکبرانہ رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مذکورہ افریقی ممالک میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ یہ امر انتہائی اہم ہے جس کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔ براعظم افریقہ میں عرب ممالک خاص طور پر مصر کی مکمل غیرحاضری: جبکہ دوسری طرف بین الاقوامی برادری خاص طور پر یورپ، امریکہ، چین اور روس کی اس براعظم کی طرف توجہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی امریکہ نے سینیگال میں ایک فوجی اڈہ قائم کیا ہے۔
2۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے عرب ممالک کی غیرحاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افریقی ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا ہے اور تاحال انتہائی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
3۔ اسرائیلی حکام چار افریقی ممالک یوگنڈا، روانڈا، کینیا اور ایتھوپیا کی بھرپور مالی، سیاسی اور ٹیکنولوجیکل مدد اور حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ اسرائیل اس مدد کے بدلے مستقبل میں سوڈان (جس ملک سے دریائے نیل گزرتا ہے) اور مصر (جس ملک میں دریائے نیل گرتا ہے) سے ہونے والی جنگوں میں مدد چاہے گا۔ اسی طرح اسرائیل ان چار ممالک کے ذریعے دیگر افریقی ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرے گا۔
اہم اور قابل ذکر نکتہ ایتھوپیا کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا زیادہ پرتپاک استقبال ہے۔ ایتھوپیا وہ ملک ہے جہاں اگلے سال "النھضہ” نامی ڈیم کی تعمیر کا پہلا مرحکہ مکمل ہونے والا ہے۔ ادیس ابابا حکومت نے اسرائیل کو یقین دہانی کروا رکھی ہے کہ وہ افریقی یونین میں مبصر کی حیثیت سے اسرائیل کی دوبارہ رکنیت کی حمایت کرے گی۔ دریاوں کے پانی سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کی روشنی میں دریائے نیل کا پانی صرف اس کے کنارے موجود ممالک کی ملکیت ہے اور کسی دوسرے ملک کو اس کا پانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ البتہ دیگر ممالک دریائے نیل کے کنارے واقع ممالک کی مرضی سے اس کا پانی استعمال کر سکتے ہیں۔ مصر اور سوڈان جو دریائے نیل کے کنارے ممالک میں شمار نہیں ہوتے اسی قانون کے تحت دریائے نیل کا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ 1955ء میں مصر اور سوڈان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی رو سے مصر کو سالانہ 55 ارب لیٹر پانی دیا جاتا ہے جبکہ سوڈان کو 18 ارب لیٹر سالانہ پانی ملتا ہے۔ دریائے نیل کا کل پانی سالانہ 86 ارب لیٹر ہے۔ یعنی مصر کو دریائے نیل کا 80 فیصد پانی ملتا ہے۔ دریائے نیل کے کنارے ممالک اس معاہدے کے خلاف ہیں اور اسے قبول نہیں کرتے۔
ابتدائی رپورٹس کے مطابق ایتھوپیا میں النھضہ ڈیم کی تکمیل کے بعد دریائے نیل سے مصر کو مہیا ہونے والے پانی کی مقدار میں 10 سے 12 فیصد تک کمی آ جائے گی۔ دریائے نیل کے پانی کا 85 فیصد حصہ ایتھوپیا کی پہاڑیوں اور اس کے اردگرد کے علاقوں سے آتا ہے جبکہ باقی پانی یوگنڈا کی وکٹوریا جھیل سے آتا ہے۔ دریائے نیل کے پانی سے مصر کے حصے میں کمی کا مطلب مصر کے اسوان ڈیم میں بننے والی بجلی کی مقدار میں 25 سے 40 فیصد تک کمی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ محمد علی پاشا جنہوں نے ریپڈ ایکش فورس کی بنیاد رکھی سے لے کر جمال عبدالناصر اور محمد مرسی تک تمام مصری رہنماوں نے دریائے نیل کے پانی سے مصر کے حصے میں کمی کی صورت میں جنگ کے آغاز کی دھمکی دے رکھی تھی۔ مصر کے سابق صدر محمد مرسی نے تو النھضہ ڈیم کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی تھی۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے 1976ء میں فلسطینی کمانڈو گروپ کے ہاتھوں اپنے بھائی یوان کے قتل کی ٹھیک چالیسویں سالگرہ کے موقع پر یوگنڈا کا دورہ کیا ہے۔ شاید وہ اس طرح عرب رہنماوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آپ براعظم افریقہ کا کنٹرول کھو چکے ہیں اور ہم ایک طرف امریکہ اور روس کے ساتھ مضبوط تعلقات، پیسہ، اسلحہ اور سیکورٹی مہارتیں رکھتے ہیں اور دوسری طرف اصلی دروازے سے براعظم افریقہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ جس زمانے میں عرب ممالک کے حکمران طاقتور، شریف اور محب وطن افراد تھے، بنجمن نیتن یاہو اور اس جیسے دیگر رہنما افریقہ جانے کی جرات تک نہیں رکھتے تھے لیکن آج صورتحال بہت تبدیل ہو چکی ہے اور مصر کے وزیر خارجہ اسرائیل کا دورہ کرتے ہیں تاکہ النھضہ ڈیم کی تعمیر سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے نیتن یاہو سے ثالثی کی درخواست کریں۔ آج امت مسلمہ انتہائی کٹھن اور دشوار حالات سے گزر رہی ہے۔ ہمیں ان حالات کی ہر گز توقع نہ تھی لیکن آج ہم انہیں حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
تحریر: عبدالباری عطوان