(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی درخواست گزاروں کی اپیل پر ایک بار پھر اسرائیلی عدالت میں ایسے شواہد پیش کیے جن میں اسرائیلی تفتیشی حکام کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں وسیع خامیوں کےساتھ مکمل شہادتوں کی کمی تھی تاہم عدالت نےغیر ضرورتی مداخلت قرار دیتے ہوئے تحقیقات کی درخواست مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز اسرائیلی سپریم کورٹ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے محصور علاقے غزہ کی پٹی میں 2014ءمیں ہونے والی صہیونی جارحیت کے نتیجے میں متعدد فلسطینیوں کے گھر اور املاک کے ساتھ ساتھ قیمتی جانوں کا زیاں ہوا اس دوران 16 جولائی کو مغربی غزہ شہر میں ماہی گیروں کے علاقے میں ساحل پر کھیلتے ہوئےایک ہی خاندان کے 4 فلسطینی بچوں کوجن کی عمریں یہ بچے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کی عمریں صرف 9-11 سال کے درمیان تھیں اسرائیلی فضائیہ نےبلا جواز میزائل کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیاتھاجس کے خلاف ان بچوں کے والدین کی جانب سےان کے وکیل حسن جبارین کی کورٹ میں واقعے کی تحقیقات کیلیے دائر کی گئی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
فلسطینی وکیل حسن جبارین نے بتایا کہ اسرائیلی عدالت نے تحقیات کیلیےواجبی چھان بین کے بعداس بہیمانہ قتل کے خلاف کسی فوجی یا ذمہ داران کو سزا دیے بغیر کیس کو بند کردیا تھا تاہم اقوام متحدہ کے آزاد کمیشن کی جون 2015ءکی رپورٹ میں اسرائیلی عدالت کے فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے جنگی جرائم قرار دیا گیا جس کے بعد صہیونی فوج کے ہاتھوں میزائل حملے میں شہید ان بچوں کے قتل کی تفتیش کی بندش کے خلاف اپیل کی گئی تھی۔
درخواست گزاروں کی اپیل پر ایک بار پھر اسرائیلی عدالت میں ایسے شواہد پیش کیے جن میں اسرائیلی تفتیشی حکام کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں وسیع خامیوں اور شہادتوں اور تفتیش میں بہت سے تضادات کو ظاہر کیا گیاتاہم گذشتہ روز قابض ریاست کی غیرمنصفانہ عدالت نے اپنے فیصلے میں صہیونی فوج کے خلاف کسی کارروائی سے انکار کر تے ہوئے کہا ہے کہ انہیں جنگ کے دوران فوج کے اقدامات میں مداخلت کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، جبکہ تحقیقات میں خامیوں کے حوالے سے فلسطینی درخواست گزاروں کے کسی بھی دلائل کے مادے پر توجہ نہیں دی۔
واضح رہے کہ فلسطینی بچوں کے قتل سے متعلق انسانی حقوق کی تین عالمی تنظیموں نے بھی کہا کہ اس کیس میں اسرائیلی سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ اسرائیل فلسطینی شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے اور فوجیوں اور کمانڈروں کے خلاف مقدمہ چلانے کیلیے تیار نہیں ہے۔