"دشمن ہمارے آہنی عزم کو شکست نہیں دے سکتا” ایک ایسا جملہ ہے جو اب الشیخ حسن یوسف کی زندگی کا جزو بن چکا ہے۔ وہ رہا ہوئے تو انہیں مبارک باد دینے والوں کا ایک تانتا بندھ گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ صیہونی جیلروں نے اُن کےعزم توڑنے کے لیے طاقت، بریت اور وحشت کا ہر حربہ استعمال کیا مگر وہ ان کے فولادی عزم کوشکست نہیں دے سکی۔
بار بار گرفتاریاں کیوں؟
رہائی کے بعد جب الشیخ حسن یوسف میڈیا کے سامنے آئے تو انہیں بار بار ایک سوال کا سامنا کرنا پڑتا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ غاصب صیہونی انہیں بار بار گرفتار کرتے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ صیہونی میرے عزم کو شکست دینا چاہتے اور مجھے اپنی قوم سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ میری قوم میرے دل میں ہے اور دشمن میرے عزم کو شکست نہیں دے سکتا۔
بلند ہمت فلسطینی رہنما نے کہا کہ قوم کو دشمن کی غلام سے نجات دلانے تک میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ جیلوں میں آنا ان کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔
خیال رہے کہ آخری بار الشیخ حسن یوسف کو اسرائیلی فوج نے 13 دسمبر 2017ء کو حراست میں لیا اور 11 ماہ تک انتظامی قید میں رکھنے کے بعد رہا کیا۔
قربانیوں کا لازوال سفر
الشیخ حسن یوسف کی قربانیوں، ایثار اور مشکلات کا سفر طویل ہے۔ وہ ابھی رہا ہوئے ہی ہوتے ہیں کہ صیہونی دشمن ان کا تعاقب کرنا اور ان کی گرفتاری کے لیے تعاقب شروع کر دیتی ہے۔ الشیخ حسن یوسف رہائی کے ایام میں اپنا کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے بلکہ ہمہ وقت جدو جہد میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
ان کی قربانیوں، ایثار اور صبرو استقلال کی داستان بہت طویل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ مجھے دوبارہ جیل جانا ہوتا ہے، اس لیے میں اپنے کپڑے اور بعض دوسری چیزیں ادھر ہی رکھ آتا ہوں۔ میری سیاہ رنگ کی گھڑی اسرائیل کی "عوفر” جیل کے بیرک نمبر 12 میں ہے اور اس پر "خارج” یعنی جانے والا کے الفاظ ہیں۔ مقامی صحافی احمد البیتاوی کا کہنا ہے کہ ایسا کون ہے جو الشیخ حسن یوسف کی حق گوئی، صداقت، قربانیوں اور استقلال کی گواہی نہیں دیتا۔ صیہونی دشمن بھی ان کے عزم استقلال کے گواہ بن چکے ہیں۔
الشیخ حسن یوسف 17 بار گرفتار کیے گئے اور 23 سال تک اسرائیلی جیلوں میں قید کاٹی۔ سنہ 1992ء میں فلسطین سے بے جلا وطن کیے جانے والے رہنماؤں میں بھی ان کا نام شامل تھا۔
الشیخ حسن یوسف کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ایک عوامی لیڈر ہیں۔ جیل سے باہر رہتے ہوئے مقامی سطح پر کوئی قومی، سماجی یا دینی تقریب ایسی نہیں ہوتی جس میں وہ شریک نہ ہوں۔ وہ فلسطینی قوم میں پھوٹ، تفرقہ بازی یا مذہبی اور مسلکی تفریق کے سخت خلاف ہیں۔
چند سطور ان کے بارے میں
الشیخ حسن یوسف دار خلیل اپریل 1955ء کو غرب اردن کے وسطی شہر رام اللہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبائی قصبے کا نام "الجانیہ” ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسی گاؤں سے حصل کی اور میٹرک کا امتحان پڑوسی علاقے کفر نعمہ کے ایک اسکول سے پاس کیا۔
ان کے والد الشیخ حسن مقامی مسجد کے پیش امام، موذن اور خطیب تھے۔ دینی ماحول کی وجہ سے حسن یوسف بھی مذہب کی طرف مائل رہے۔ ان کی محبت کا محور اور مرکز صرف دین اسلام ہے۔ وہ اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے نفرت کرنے والوں میں شامل ہیں۔
پندرہ سال کی عمر میں الشیخ حسن یوسف کو التحتا کے مقام پر ایک مسجد کی ذمہ داری سونپی گئی۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے القدس یونیورسٹی سے اصول الدین میں گریجوایشن بھی کی۔ ان کی شادی بیتونیا قصبے کی ایک نیک طینت خاتون صباح ابو سالم سے ہوئی۔ ان کے چھ بچے بچیاں ہیں۔
آپ کی اگلی گرفتاری کب ہوگی؟
صحافی علاء الریماوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک بار الشیخ حسن یوسف کا ان کی رہائی کے بعد انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو میں ان سے پوچھا کہ آپ کی اگلی گرفتاری کب ہوگی؟ الشیخ حسن یوسف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میں "الفورۃ” پر ہوں۔ الفورہ کی اصطلاح اسرائیلی جیلوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ جیل میں چوبیس گھنٹوں کے دوران دن کے وقت کچھ دیر کے لیے قیدیوں کو ان کے کمروں سے باہر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اسے الفورہ یا تھوڑی دیر کا وقفہ کہتے ہیں۔
الریماوی کا کہنا ہے کہ میں نے الشیخ حسن یوسف جیسا متحرک شخص نہیں دیکھا۔ وہ ہر وقت کام کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ان کے دن کی مصروفیات میں دس سے کم سرگرمیاں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔