غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے علاقےغزہ کی پٹی پر جہاں ایک طرف قابض صیہونی ریاست نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں تو وہاں دوسری طرف صدر محمود عباس کی انتقامی پالیسی کے تحت بھی غزہ کے عوام پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔
غزہ کے عوام فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ پابندیوں سے پریشان ہیں۔ آئے روز فلسطینی شہری ان پابندیوں کے خلاف اجتماعی مظاہرے بھی کرتے ہیں۔ ایک فلسطینی دو شیزہ نے احتجاج کا منفرد طریقہ اختیار کیا ہے۔شرین البطریحی نے حالی معدے کے ساتھ بھوک ہڑتال 4 ستمبر کو شروع کی اُس کی خالی پیٹ اِس جنگ کا مقصد غزہ کی پٹی کے مشکل معاشی حالات، اسرائیلی محاصرے، فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں، محمود عباس کی انتقامی سیاست اور فلسطینوں کے درمیان پائے جانے والے سیاسی انشاءکی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔
البطریحی کا کہنا ہے کہ اُس نے مسلسل 20 روز سے نمک اور پانی کے سوا کچھ کھایا پیا نہیں وہ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ غزہ کے لوگÂ کن سنگین معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
بھوک ہڑتال کا پیغام
بھوک ہڑتالی دوشیزہ نے کہا کہ میری ہڑتال فلسطینی حکام اور انسانیÂ حقوق کے علم برداروں کے لئے بھی پیغام ہے کہ وہ غزہ کے عوام کی مشکلات کا فوری، مؤثر اور دیر پا حل تلاش کریں۔ اُنھیں معلوم ہونا چاہئے کہ غزہ کے لاکھوں نوجوان کس طرح کی غربت -اور بے روز گاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ البطریحی نے الزام عائد کیا کہ غزہ کی پٹی پر پابندیوں کی حو صلہ افزائی کرنے والے وہاں کے عوام کی مشکلات کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ اُس نے غزہ کے عوام کو درپیش بحرانوں کے حل اور بلا تاخیر عوام کو سہولیات فراہم کرنے پر زور دیا۔
صدر محمود عباس کے نام پیغام میں اُس نے پابندیاں اُٹھانے اور عوام کو اجتماعی سزا دینے کا سلسلا بند کرنےÂ مطالبہ کیا اور کہا کہ کسی سیاسیÂ جماعت سے اختلافÂ پوری اَبادی کو سزا دینے کا جواز نہیں ہو سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں بھوک ہڑتال کرنے والیÂ لڑکی نے اسلامی تحریک مزاحمت حماس اور تاریک فتح کی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ اختلافات کو بالاطاق رکھتے ہوئے مصالحت کی طرفÂ اَئیں تاکہ غزہ کے عوام کو جان لیوا معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔
اُس نے کہا کہ بھوک ہڑتال کے ذریعے میں یہ ثابت کرنا چاہتی ہوں کہ غزہ کے عوام کے خلافÂ کس طرح کے غیر قانونیÂ غیر اخلاقی غیر انسانی ہتکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔
غزہ پر عائد ناکہ بندی کو توڑنے کےÂ لئے احتجاج کے دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ اُس کی بھوک ہڑتال بھی ایک ذریعہ ہے۔
مکتوب جس کا جواب نہ مِلا
شرین البطریحی نے وضاحت کی کہ اُس نے فلسطینی اتھارٹیÂ کی وزارتÂ برائے بہبود خواتین کو ایک مکتوب تحریر کیا۔ جس میں غزہ کے عوام کو درپیشÂ مشکلاتÂ پر توجہ دلائی گئی کئیں ہفتے گزر جانے کے باوجودÂ متعلقہ عہد دار نے جواب دیا نہ وضاحت کی۔
واضح رہے کہ 32 سالہ البطریحی اِس قبل ملازمت کے حصول کے لئے بطور احتجاج بھوک ہڑتال کر چکی ہیں۔ عوامی سطح پر اُس کی کوششوں کو سراہا گیا۔ 2سال پیشتر جب غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں ملازمتیں بند کر دی گئی تو البطریحی نے اُس کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا۔ اِس دوران وزارت خواتین نے البطریحی کو 6 ماہ کی ایڈہاک پر عارضی ملازمت دی اور کہا اُسے جلد ہی مستقل کر دیا جائے گا۔ مگر 2 سال گذرنے کے باوجود اُس کے ساتھÂ کیا گیا وعدہÂ پوراÂ نہیں ہو سکا ۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کے حکام کوÂ بار بار متوجہ کر چکی ہیں۔ مگر دوسری جانب مجرمانہ غفلت برتی جا رہی ہے۔