الخلیل (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) سابق اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’پیرس میں 13 ستمبر 1993ء کو ہوٹل میں قیام کے دوران صبح سات بجے میں نے فلسطینی رہنما احمد قریع کے کمرے کا دروازہ کھولا، انہیں بیدار کیا اور کہا میں نے آپ کے لیے ’اوسلو‘ سمجھوتے کا تحفہ لایا ہوں۔ یہ تحفہ دونوں قوموں ( فلسطینیوں اور اسرائیلیوں) کو خوش کر دے گا۔
آج سے 25 سال پیشتر امریکا اور صیہونی قوتوں نے فلسطینی لیڈر یاسرعرفات کو آزاد فلسطینی ریاست کے سہانے خواب دکھا کر ایک ایسے سمجھوتے پر مجبور کیا جو فلسطین کی تاریخ میں ایک ’گھناؤنا جرم‘ بن کر سامنے آیا۔ آج کی فلسطینی قیادت جہاں ایک طرف اس نام نہاد امن سمجھوتے کی وجہ سے سنگین مشکلات سے دوچار ہے تو وہیں اس غلطی کا اعتراف بھی کرتی دکھائی دیتی ہے۔چند روز قبل تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری جنرل صائب عریقات نے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ ستمبر 1993ء میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ’اوسلو معاہدہ‘ ایک بڑی غلطی تھی۔ فلسطینیوں سے اس معاہدے کے طے پانے کے وقت یہ غلطی سرزد ہوئی کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرانے میں ناکام رہی۔ دوسری طرف امریکا اور صیہونی اسرائیل کو فلسطینیوں سے تسلیم کرانے کے اپنے مذموم مشن میں کامیاب رہے۔
صائب عریقات نے مزید کہا کہ اوسلو سمجھوتے میں اسرائیل کو فلسطینی اراضی سے قبضہ ختم کرانے کا اعلان کرایا گیا مگراس معاہدے کے باوجود اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اپنا غیرقانونی تسلط برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کیا فلسطینیوں کا یہ گناہ تھا کہ انہوں نے ’اوسلو‘سمجھوتا کرکے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ فلسطینیوں سے یہ غلطی سرزد ہوئی کہ اوسلو سمجھوتے کے وقت وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور اس کی حدود کا اعلان کرانے میں ناکام رہے۔
’اس وقت ہم سے کہا گیا کہ ہم اسرائیل کو ارض فلسطین میں ایک قانونی ریاست تسلیم کریں مگر دوسری طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کے وجود کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کیا‘ اس کے بعد تنظیم آزادی فلسطین کی مرکزی کونسل نے اپنے اجلاسوں میں باربار اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ’اوسلو سمجھوتے‘ میں طے شدہ نکات پرعمل درآمد کرتے ہوئے فلسطینی مملکت کو بھی تسلیم کرے‘۔
اندھیری غار
فلسطینی تجزیہ نگاروں کے مطابق ’اوسلو‘ سمجھوتا ایک تاریک غار کی طرح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ قضیہ فلسطین کو ضائع کرنے کے مرحلے سے آگے بڑھ کر اس کا تصفیہ کیا جا رہا ہے۔ اوسلو معاہدے نے اسرائیلی ریاست کے اہداف کو واضح کیا ہے مگر فلسطینی قوم کے مستقبل کو مزید خطرات سےدوچار کردیا گیا۔
سویر جو کا کہنا تھا کہ ’اوسلو سمجھوتا‘ اپنے اندر کئی خطرات سموئے ہوئے ہے۔ اس میں فلسطین میں صیہونی آباد کاری روکنے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوئی شرط شامل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے نزدیک ’اوسلو سمجھوتا‘ فلسطینی اراضی پرقبضے کو توسیع دینے کی ایک کامیاب کوشش تھی جس میں امریکیوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ اس وقت قضیہ فلسطین تاریخ کے انتہائی خطرناک دور سے گذر رہا ہے۔ ’اوسلو سمجھوتا‘ کے 25 سال گذر جانے کے بعد آج غرب اردنÂ اور بیت المقدس بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور دو ریاستی حل بھی ناکام ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اوسلو سمجھوتے‘ میں یہ بہت بڑی خامی تھی کہ اس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرایا گیا۔ فلسطینی قوم کو حق خود ارادیت سے محروم رکھا گیا۔ القدس اور فلسطینی پناہ گزینوں کے مسائل بھی جوں کے توں رہے۔ آج اسرائیل اپنی مرضی سے ان مسائل کو ڈیل کررہا ہے۔
خیال رہے کہ ذوالفقار سویر جو عوامی محاذ برائے آزاد فلسطین کے رہنما ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنی ویب سائیٹ پر ایک سروے کرایا جس میں انہوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے مسلح مزاحمت یا سیاسی مذاکرات کار کے درمیان فلسطینیوں سے رائے لی۔ سروے میں 70 فی صد فلسطینیوں نے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے مسلح جدو جہد کی حمایت جب کہÂ فی صد فلسطینیوں نے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے مسلح جدو جہد کی حمایت جب کہ 30 فی صد نے مذاکرات پر زور دیا۔
وقت کا ضیاع
فلسطینی تجزیہ نگار پروفیسر عبدالستار قاسم نے کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے ’اوسلو‘ سمجھوتےÂ کے دوران قومی ایشوز اور فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق کے منوانے کے معاملے میں ’سیاسی عریانیت‘ کا مظاہرہ کیا۔ فلسطینی لیڈر شپ نے قومی نوعیت کے اہداف کو صیہونی ریاست کے ہاں گروی رکھ دیا جس کے نتیجے میں دشمن نے قضیہ فلسطین کا تصفیہ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اوسلو معاہدے کے بعد قوم کے 25 سال ضائع کردیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’پی ایل او‘ نے داخلی نوعیت کے مسائل کے حل اور اسرائیل کے ساتھ جاری محاذ آرائی سے نکلنے کے لیے’اوسلو معاہدے‘ کو ایک ’حل‘ کے طور پر ذہن میں رکھا۔ دوسری طرف بعض عرب ممالک بھی قضیہ فلسطین کے سودے بازی کے حق میں تھے۔ یوں پی ایل او بھی ان کے ساتھ مل گئیÂ اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست بات چیت کے جھانسے میں آتی چلی گئی۔
فلسطینی تجزیہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی قوم آج تک ’اوسلو سمجھوتے‘ کی تاریخی غلطی کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اس سمجھوتے کا انتہائی خطرناک پہلو عرب ممالک کے لیے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی شکل میں سامنے آیا۔
مسجد اقصیٰ کی قربانی
سیاسی دانشورÂ ڈاکٹر جمال عمرو نے ’اوسلو سمجھوتے‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آج جس طرح کے حالات چل رہے ہیں وہ ’خیالی اور فرضی پروگرام کا نقطہ اختتام ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سمجھوتے کے نتیجے میں سب سے زیادہ مسجد اقصیٰ متاثر ہوئی۔ یہ اس معاہدے ہی کا شاخسانہ ہے کہ فلسطینی قوم آج قبلہ اوّل سے محروم ہوتی جا رہے اور ہر آنے والا دن قبلہ اوّل کے حوالے سے سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔
یہ خیالی پروگرام 25 سال تک فلسطینیوں کے دماغوں پر مسلط رہا۔ اس کا مقصد فلسطینی تحریک مزاحمت کو ختم کرنا اور فلسطینی قوم کو نام نہاد اور خیالی وعدوں کی زنجیروں میں جکڑنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پچیس سال تک ہم جس سمجھوتے کے گن گاتے رہے، آج ہم اس کی حقیقت کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔