تحریر: صابر ابو مریم
ÂÂ
ابراھیم ایک پچاسی سالہ فلسطینی ہے کہ جو اب لاطینی امریکہ میں مقیم ہے، ابراھیم کو اپنی زندگی کی پچھتر سالہ یادوں میں سے کافی کچھ یاد ہے کہ جب وہ دس برس کا تھا اور ہوش سنبھالا تھا اس وقت سے لے کر اب تک کی یادیں اس نے اپنے سینے میں دفن کر
رکھی ہیں۔جب کسی نے ابراھیم سے فلسطین کے بارے بات شروع کی تو ابراھیم کی آنکھوں میں ایک عجب چمک سی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اپنے آبائی گھر فلسطین کے بارے میں بہت کچھ بیان کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ اس کی عمر کافی ہو چکی ہے لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنی اس جگہ یا مقام کو ہی بھول جائے کہ جہاں اس نے جنم لیا ہو اور اپنے بچپن کے خوبصورت دنوں کو گزارا ہو۔یہی حال ابراھیم کا ہے کہ وہ فلسطین سے متعلق اپنی تمام یادوں کو جمع کئے ہوئے ہے اور اس نے کسی بھی لمحہ کو فراموش نہیں کیا ہے۔
فلسطین، ابراھیم کی گفتگو کا مرکز و محور رہتا ہے۔وہ اپنے وطن کہ جہاں وہ پیدا ہو اتھا اس کے بارے میں انتہائی فخر کے ساتھ بات کرتا ہے۔سب سے پہلی بات وہ کسی کے پوچھنے پر جو بتاتا ہے وہ ابراھیم کا فلسطین میں آبائی گاؤں کا نام ہے، یعنی وہ کہتا ہے کہ میرا تعلق بیت جالا سے ہے۔اس کو آج بھی اپنے گھر کا نقشہ و منظر اور بسنے والے پانچ افراد سمیت تین دیگر افراد یاد ہیں جو اکثرا وقات اس کے گھر میں آتے جاتے تھے۔ابراھیم کے والد فلسطین کے معزز ترین ، تعلیمی یافتہ گھرانے اور خاندان سے تعلق رکھنے والے تھے اور انہوں نے فلسطین پر برطانوی حکومت کے کنٹرول کے دوران برطانوی سامراج کے خلاف جد وجہد میں ہمیشہ صف اول میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا۔ابراھیم کہتا ہے کہ وہ وہ اپنے ایک بڑے سے بیڈ پر اپنی والدہ اور دو بہن بھائیوں کے ساتھ شب گزارتا تھا کہ جب اس کے گھر میں اس کے والد کے ساتھی برطانوی سامراج کے خلاف جد وجہد میں مصروف گھر کے دیگر کمروں میں تحریکی کام اور میٹنگز وغیرہ کر رہے ہوتے تھے۔
فلسطین کے حالات بیان کرتے ہوئے ابراھیم کی کہانی میں داؤد انکل کے کینو انوکھی یادیں رکھتے ہیں، داؤد انکل ابراھیم کے کوئی رشتہ دار نہیں تھے بلکہ فلسطین میں بسنے والے یہودی عرب گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک یہودی تھے کہ جنہوں نے ابراھیم کے والد کے ساتھ برطانوی سامراج کے تسلط کیخلاف جدوجہد میں شانہ بہ شانہ حصہ لیا ہے۔انکل داؤد جب بھی ابراھیم کے گھر آتے اپنے ہاتھوں میں عربوں کی روایات کے مطابق ہمیشہ ہی کچھ نہ کچھ تحائف ہمراہ لاتے، ابراھیم کی یادوں کے مطابق کبھی مٹھائی، کبھی بچوں کے لئے ٹافیاں، اور کبھی ابراھیم کے پسندیدی کینو اور دوسرے پھل وغیرہ ساتھ ہوتے تھے۔
داؤد نے ایک دن گھر آتے ہی ابراھیم کے والد کو ایک یہودی مزہبی رہنما کے قتل کی داستان بتائی جس پر ابراھیم کے والد شدید دکھی تھے، داؤد نے بتایا کہ یورپ سے ہجرت کرکے آنے والے صیہونی یہودیوں نے فلسطینی عرب یہودی کے گھر پر حملہ کیا اور اس کو بے دردی سے قتل کر دیا تا کہ اس کا الزام فلسطینی مسلمان عرب پر لگا کر فلسطین میں مسلمان اور یہودیوں کے مابین فسادات کروانا تھا۔
ابراھیم کی یادوں کے مطابق یہ فلسطین سنہ1948ء سے کچھ سال قبل کا تھا کہ جب صیہونیوں کو یورپی ممالک سے کشتیوں میں بھر بھر کر سمندری راستوں سے فلسطین پر مسلط کرنے کے لئے پہنچایا جا رہا تھا۔ حالات اس قدر نا گفتہ بہ ہوتے جا رہے تھے کہ داؤد بھی اپنی جان بچانے کی غرض سے اپنے بچوں کے ہمراہ نکل گئے اور پھر وہ دن کبھی نہ آیا کہ دواؤد ابراھیم کے لئے تحائف اور کینو لاتے کیونکہ صیہونی ہر فلسطینی عرب خواہ اس کا تعلق مسلمان ، عیسائی یا یہودی مذہب سے ہو اس کی جان کے دشمن بن چکے تھے ۔
یہ وہ زمانہ شروع ہو چکا تھا کہ اب فلسطین پر اسرائیل قبضہ کرنے لگا تھا اور گھر میں ہونے والی میٹنگز بھی رفتہ رفتہ سست روی کا شکار اور مسائل کا شکار ہونے لگی تھی، بہت سے جد وجہد کرنے والے صیہونیوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے۔فلسطین اب فلسطین کے اپنے ہی باسیوں اور ہم وطنوں کے لئے ایک خطر ناک صورت اختیار کر چکا تھا۔ابراھیم مسلسل صیہونیوں کی جانب سے اس قسم کے مطالبات کو سنتا تھا کہ جو اس کے والدین سے کئے جاتے تھے کہ وہ اپنا گھر چھوڑ دیں اور فوری طور پر فلسطین سے نکل جائیں مصر جائیں یا اردن چلے جائیں، ایسے حالات میں ابراھیم کے والد نے دلیری اور شجاعت کے ساتھ فلسطین میں قدم جمائے رکھے جبکہ ابراھیم کے مطابق اس کی والدہ اپنے شوہر کی زندگی سے متعلق بہت پریشان رہتی تھیں کیونکہ ان کے تمام ساتھی اور دوست تقریبا اب صیہونیوں کے سفاکانہ مظالم کا نشانہ بن چکے تھے۔
ابراھیم کی یادوں میں ایک سخت ترین یاد یہ ہے کہ جب ابراھیم کے والد نے ایک دن اپنے گھر والوں سے کہا کہ برطانوی سامراج نے فلسطینیوں کو صیہونیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیاہے۔اس دن کے کچھ دن بعد ہی ابراھیم کے والد کام سے واپس نہ لوٹے تو معلومات کرنے پر خبر ملی کہ گھر لوٹتے ہوئے تین صیہونیوں نے ان کو اغوا کر لیا ہے اور وہ لا پتہ ہیں،یہ صیہونیوں کا روز مرہ کا معمول تھا کہ وہ جب چاہتے جہاں چاہتے تھے فلسطینی عربوں کو اغوا کرتے اور قتل کرتے تھے، ظلم اور سفاکیت کی انتہاء یہاں تک آن پہنچی تھی کہ صیہونیوں کی جانب سے فلسطین چھوڑنے کے مطالبہ کے سامنے اگر کوئی فلسطینی مزاحمت کرتا اور اپنے گھروں کو نہ چھوڑتا تو اس کے گھروں سے خواتین کو بے آبرو کیا جاتا، برہنہ کر کے سڑکوں پر پھرایا جاتا اور پھر قتل کر دیا جاتا تھا۔والد کے اغوا اور قتل کے بعد ابراھیم کی والدہ اپنے بچوں کو لے کر فلسطین سے جلا وطن ہوگئیں اور چلی میں آ کر پناہ لی۔
ابراھیم کے مطابق یہاں ان کی والدہ نے آ کر ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں نوکری تلاش کی تا کہ بچوں کی زندگی کا گزر بسر ہو سکے۔یہاں فیکٹری مالک نے ابراھیم کومشینری ٹیکنیشن بنایا اور پھر مزید مہارت کے لئے جرمنی اور اٹلی میں تربیت کے مواقع فراہم کئے۔اس کے بعد سے ابراھیم اب تک لاطینی امریکہ میں ہی مقیم ہے۔چلی میں ابراھیم کو ایک نئی زندگی ملی اور یہی وجہ ہے کہ اب ابراھیم چلی کو میرا ملک کہہ کر پکارتا تھا لیکن میرا گھر ’’بیت جالا فلسطین‘‘ پکارتا تھا۔اطلاعات کے مطابق ابراھیم کا کچھ روز قبل ہی چلی میں انتقال ہو گیا ہے لیکن زندگی اور موت کی کشمکش میں ابراھیم کی زبان سے جو الفاظ نکلے ہیں سننے والوں کے لئے قابل رشک تھے، اس نے اپنے دوستو ں سے کہا کہ فکر مت کریں اور پریشان مت ہوں، فلسطین بہت جلد آزاد ہو گا اور آپ سب یروشلم یعنی القدس میں جمع ہوں گے کیونکہ فلسطینی مزاحمت کی قیادت کرنے والوں نے اس کا وعدہ کیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنی ناجائز ریاست کے قیام کے لئے فلسطینیوں کی سرزمین کا غلط انتخاب کیا ہے۔فلسطینی ، فلسطین کو ایک سرزمین ہی نہیں بلکہ اپنا گھر سمجھتے ہیں۔دنیا کی کوئی طاقت اور صیہونیوں کی درندگی فلسطینیوں کو ان کے گھر واپس آنے سے روک نہیں سکے گی، جلد ہی ابراھیم کی نسل سے فلسطینی اپنے گھروں میں ہوں گے اور ابراھیم کے گھر بیت جالا میں ابراھیم اور داؤد کی یاد میں کینو اور موسمی کے پودے کاشت کر کے ان کے نام سے منسوب کریں گے۔یہ اصل فلسطین اور اس کی کہانی ہے جسے امریکہ سمیت اسرائیل اور اس کے حواری ختم نہیں کر سکتے، یہ فلسطین کی نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے اور فلسطین کی آزادی فلسطینیوں کے حق واپسی کے ساتھ ساتھ فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ بہت جلد القدس میں ہم سب نماز ادا کریں گے۔