رام اللہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے سرکاری اعدادو شمار نے میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے آٹھ مہینوں کے دوران 1300 سائبر جرائم اور سائبر بلیک میلنگ کے واقعات کا اندراج کیا گیا۔ ان میں سے 38 فی صد سائبر جرائم میں خواتین کو بلیک میل کیے جانے کے واقعات شامل ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ سائبر جرائم کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک بڑی تعداد ان واقعات کی ہے جن میں خواتین کو بلیک میل کیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سائبر بلیک میلر خواتین کے روپ میں خواتین کو اپنے چنگل میں پھنساتے اور ان مال حرام کمانے کے لیے بلیک میل کرتے رہے۔
ٹیکنالوجی کے امور کے ماہر امین ابوسیفین نے کہا کہÂ فلسطین میں سائبر جرائم کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ لوگوں میں انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران تحفظ کے حوالے سے آگاہی کا فقدان رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہیکر اور سائبر جرائم پیشہ عناصر انتہائی پیشہ ور ہوتے ہیں جو اپنے شکار کو پھنسانے کے لیے ایسے ایسے ناقابل یقین حربے استعمال کرتے ہیں جن کی بناء پر شکار خود بہ خود ان کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ وہ خواتین کے روپ میں خواتین کے ساتھ انٹرنیٹ پر دوستی کرتے، ان کے اکاؤنٹ ہیک کرکے ان کی پرائیویسی کو تک رسائی حاصل کرنے۔ ان کی میسیجینگ تک رسائی حاصل کرکے انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ خواتین کی تصاویر حاصل کرنے کے بعد انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
یوسیفین نے خبردار کیا کہ عوامی سطح پر سائبر جرائم سے متعلق آگاہی کے فقدان سے ہم ایک ہی غلطی بار بار کرسکتے ہیں۔ عوام الناس میں سائبر جرائم اور آن لائن بلیک میلنگ کے لیے شعورہونا چاہیے۔
کھلی فضاء
ایک ہیکر نے اعتراف کیا کہ وہ خواتین کا روپ دھار کر کسی بھی دوسرے شخص کے ساتھ دوستی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ رابطے کے لیے ایسی اپیلیکیشن استعمال کی جاتی ہیں جو شکار کی تصاویر اور آواز کو ریکارڈ کرتی ہے۔ ایسے حالات میں زیادہ تر شکار خواتین ہوتی ہیں۔ جب ان کے ساتھ بات چیت کھل کر ہونا شروع ہوتی ہے تو اس کے بعد اچانک ایک دن متعلقہ شخص کو خبر دی جاتی ہے کہ ہمارےÂ پاس اس کی فلاں فلاں معلومات ہیں اگر اتنی رقم نہ دی گئی تو ہم ان معلومات اور تصاویر کو افشاء کردیں گے۔
سائبر ہیکر نے کہا کہ ان کا زیادہ تر شکار خواتین ہوتی ہیں۔ جب وہ ہمارے چنگل میں پھنسی جاتی ہیں تو وہ سخت نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایسی بھی ہوتی ہیں جو عزت بچانے کے لیے اپنی پورے مہینے کی آمدن اور تنخواہ بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے ہمارے ایجنٹوں کے حوالے کردیتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ہیکر کا کہنا تھا کہ ہمارے ایجنٹ نہ صرف فلسطین میں موجود ہیں بلکہ ان میں سے بیشتر مغربی عرب،یورپ اور دوسرے ملکوں میں ہوتے ہیں اور بلیک میلنگ کے ذریعے حاصل کرردہ رقم بھی ان تک پہنچائی جاتی ہے۔
وضاحت کا فقدان
فلسطینی پولیس کے ترجمان لوئی ارزیقات نے کہا کہ سائبر جرائم کی کئی اقسام نہیں۔ ان میں بلیک میلنگ، تشہیر، دھمکی اور سرقہ جیسے جرائم عام ہیں۔ ان میں سے بیشتر شکار خواتین ہوتی ہیں۔ بلیک میلر ان کی تصاویر حاصل کرتے یا ہیکنگ کے ذریعے ان کے سوشل نیٹ ورکنگ اکاؤنٹ ہیک کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں پیسے کے ذریعے دباؤ یا بلیک میں کیا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ خواتین سمیت ہر شہری کو سائبر جرائم کے حوالے سے جرات کے ساتھ اظہار کرنا چاہیے۔ فلسطینی پولیس نے سائبر جرائم پر قابو پانے کے لیے ایک شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ایسی مشکوک کوشش کے بارےمیں حکام کو فوری مطلع کریں۔
فلسطینی سماجی امور کےماہر ناصر ابو زید نے کہا کہ فلسطینی خاندانوں میں سائبر جرائم کے حوالے سے فوری شکایت کا شعور نہیں۔ اگر کوئی خاتون ہیکروں یا سائبر جرائم پیشہ عناصر کے چنگل میں پھنس جاتی ہے تو وہ اس حوالے سے اپنے اہل خانہ یا دیگر افراد کے سامنے اظہار نہیں کرتی۔ اس طرح بروقت ایسے کسی بھی واقعے کا حکام کو علم نہیں ہوپاتا اور اس کا انسداد نہیں ہوپاتا۔