الخلیل (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی قوم کو اپنی بہادریÂ بیٹیوں پر بجا طور پر فخر ہے جو میدان جہاد اور تحریک آزادی کے ہر ہر میدان میں جرات اور بہادری کے کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔
انہی بہادر بیٹیوں میں ایک نام لمیٰ خاطر کا ہے جو اپنے قلمی جہاد کی وجہ سے بار بار صیہونی زندانوں میں قید کی جاتی ہیں۔
لمیٰ خاطر کو حال میں تحریک آزادی فلسطین کے لیے اپنے آزاد ضمیر اور قلم کو استعمال کرنے، فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اور غاصب صیہونی ریاست کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں گھر سے اٹھا کر عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا۔فلسطین میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ گذشتہ روز حراست میں لی گئی فلسطینی دانشور اور صحافیہ لمیٰ خاطر کو عسقلانÂ نامی عقوبت خانے میں ڈالا گیا جہاں اس پر وحشیانہ تشدد کیا جا رہا ہے۔
’کلب برائے اسیران‘ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ لمیٰ خاطر کو عسقلان عقوبت خانے میں غیرانسانی ماحول میں رکھا گیا ہے اور اس پر خواتین اور مرد صیہونی جلادوں نے وحشیانہ تشدد کیا ہے۔
خیال رہے کہ 42 سالہ صحافیہ لمیٰ خاطر کو اسرائیلی فوج نے منگل کے روز غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل سے حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لمیٰ خاطر کو رات کو عسقلان کے ایک فوجی ٹارچر سیل میں لے جایا گیا تھا جہاں اسے صیہونی جلادوں نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
خیال رہے کہ لمیٰ خاطر کے شوہر پہلے ہی پابند سلاسل ہیں جب کہ دو سال قبل لمیٰ کو بھی اسرائیلی فوج نے دو ماہ کے بچے کے ساتھ جیل میں ڈال دیا تھا۔
لمیٰ خاطر پانچ بچوں کی ماں ہیں اور کئی جسمانی بیماریوں کا بھی شکار ہیں۔ فلسطینی اخبارات میں اکثر ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں وہ صیہونی ریاست کے مظالم پر آواز اٹھاتی ہیں۔ ان کی گرفتاری کا محرک کلمہ حق کہنا ہی بتایا جاتا ہے۔
تلوار کی طرح کاٹ دار قلم
قضیہ فلسطین سے آگہی رکھنے والے لمیٰ خاطر کے نام سے واقف ہیں۔ غاصب صیہونیوں کے مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے لمٰی خاطر کا کاٹ دار قلم تلوارکی دھار سے زیادہ کاٹ دار ہے۔ اس کی آراء کو فلسطین، عرب اور مسلمان ممالک میں قضیہ فلسطین کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے غیرمعمولی پذیرائی فراہم کی جاتی ہے۔ لمیٰ کے قلم میں مظلوم فلسطینی قوم کی مناصرت اور صیہونی مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے مؤثراور توانا آواز کا واضح تاثر موجود ہے۔ وہ اپنے قلم، آواز اور تحریر سمیت دیگر تمام صلاحیتوں کو صیہونی ریاست کے خلاف آواز اٹھانے میں صرف کرتی ہیں۔
لمیٰ خاطر کی یہ پہلی گرفتاری نہیں بلکہ وہ ماضی میں بھی کئی بار صیہونی زندانوں میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھا چکی ہیں۔
حال ہی میں جب اسرائیلی فوج نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور گھر میں توڑپھوڑ کے بعد ان کے بچوں کو بھی ہراساں کیا۔
فلسطینی اتھارٹی کا منفی کردار
لمیٰ خاطر کو نہ صرف صیہونی فوج کی طرف سے بار بار حراست میں لیا جاتا رہا ہے بلکہ فلسطینی اتھارٹی بھی اس مجرمانہ طرز عمل میں صیہونی ریاست سے پیچھے نہیں رہی۔
فلسطینی مبصرین کا کہنا ہے کہ رام اللہ اتھارٹی قومی روایات، اقداراور سماجی روایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہی ہے۔ تجزیہ نگار رائد الشرباتی کا کہنا ہے کہ سنہ 2012ء کو فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے لمیٰ خاطر سمیت کئی دوسری خواتین کو متعدد بار حراست میں لیا اور انہیں انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے لمیٰ خاطر کو اس لیے حراست میں لیا جاتا رہا ہے تاکہ اس کی آواز آزادی کو دبایا جاسکے۔
فلسطینی اتھارٹی نے حازم الفاخوری کو حراست میں لیا۔ انہیں جسمانی اور نفسیاتی طور پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
چاہے صیہونی ریاست کا جبر وتشدد ہو یا فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست، لمیٰ خاطر نے ہرمحاذ اور ہر حال میں صبر اور استقلال، جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے عزت کی زندگی کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دی۔ وہ اب بھی عزت اور عزیمت کی راہ پر چل رہی ہیں۔