’غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) جب میں نے اسے غزہ کی سرحد پر ہاتھوں میں لاؤڈ اسپیکر اٹھائے عبرانی زبان میں نعرے لگاتے دیکھا مگر مجھے لگا کہ کوئی دشمن ہماری صفوں میں گھس آیا ہے مگر اس کے جذبات واحساسات کی تحقیق کے بعد پتا چلا کہ وہ علی شاھین ہے جو تحریک حق واپسی کی عبرانی زبان میں کوریج کر رہا ہے‘۔
یہ الفاظ ایک مقامی فلسطینی شہری کے ہیں جو غزہ کی مشرقی سرحد پر فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کے لیے 30 مارچ 2018ء کے بعد سے مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔64 سالہ مراد السید علی شاھین ہرجمعہ کو نماز جمعہ کے بعد غزہ کی سرحد کی طرف نکل پڑتا ہے اور جب تک پرامن احتجاج جاری رہتا ہے تووہ لاؤڈ اسپیکر پر عبرانی میں بات کرتا اور فلسطینیوں کے حق واپسی کے لیے نعرے لگاتا ہے۔
السید شاھین کا کہنا ہے کہ وہ مشرقی البریج کے مقام پر گذشتہ کئی ماہ سے یومیہ اور ہفتہ وار مظاہروں میں بھرپور طریقے سے شرکت کرتا رہا ہے۔ اس نے پچھلے پانچ ماہ کے دوران ہونے والے احتجاج میں سے کوئی ایک بھی نہیں چھوڑا۔
امن کا پیغام
علی شاھین کا کہنا ہے کہ اس نے پچھلے پانچ ماہ کے دوران حق واپسی کے لیے جاری مظاہروں میں پوری طرح شرکت کی۔ وہ عبرانی زبان میں لاؤڈ اسپیکر پر اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں نعرے لگاتا ہے۔
علی شاھین نے کہا کہ میں ہر جمعہ کو احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتا ہوں۔ میری اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ بات ہوتی ہے۔ میں ان سے عبرانی زبان میں بات کرتا ہوں تاکہ ان تک یہ پیغام پہنچے کہ ہم پرامن ہیں اور ہمار مشن اپنے جائز، آئینی اور مسلمہ حقوق کےحصول کے لیے جدو جہد کرنا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ عبرانی زبان میں کس طرح کے نعرے لگاتے ہیں تو علی شاہین کا کہنا تھا کہ ’میرے نعروں میں زیادہ تر ’یہ ہمارا وطن ہے اور اہم اسے آزاد کرائیں گے‘ ’تم ہمارے وطن پر قابض ہو اور تم جانتے ہو کہ فلسطین تمہاری ملکیت نہیں‘۔ فلسطینی قوم کو اپنے وطن کی آزادی کا حق ہے۔ ہمÂ قابض ریاست کے احکامات کے پابند نہیں۔ اسرائیل کے تمام دعوے باطل اور بے بنیاد ہیں۔ القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے، اسرائیل نام کی یہاں کوئی ریاست نہیں بلکہ ہمارے وطن کا نام فلسطین ہے۔
عینی شاہد
پیشانی اور گردن سے پیسنہ صاف کرتے ہوئے علی شاھین نے کہا کہ اسرائیلی فوجی سرحد پر مظاہرین سے 300 میٹر دور ہوتے ہیں۔
علی شاھین کے 10 بیٹے ہیںÂ جب کہ پوتوں اور نواسوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ اس نے سنہ 2000ء میں شروع ہونے والی انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران کام کاج ترک کردیا تھا۔
اس کا کہنا ہے کہ میں روزانہ اور ہرجمعہ کو ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرتا ہوں۔ میں مظاہروں کے دوران فلسطینیوں کے ساتھ صیہونی فوج کے برتاؤ کا عینی شاہد ہوں۔