غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کی حالیہ کشیدہ صورت حال اور امریکا کے مجوزہ امن پلان ’صدی کی ڈیل‘ کے تناظر دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اسرائیل اور اس کی حامی قوتیں غزہ کے دوملین فلسطینیوں کا بوجھ مصر کے کندھوں پر ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
اس ضمن میں اسرائیل کے دائیں بازو کے ایک سرکردہ دانشور اور لکھاری ’زاحی لیوی‘ نے اپنے ایک تازہ تجزیے میں لکھا ہے کہ غزہ کی پٹی کے مسئلے کا بہتر حل یہی ہے کہ اسے فلسطین سے الگ تھلگ کر کے مصر کے حوالے کر دیا جائے اور غزہ سنہ 1967ء سے پہلے والی پوزیشن میں آجائے۔لیوی لکھتا ہے کہ ’غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے خلاف فیصلہ فوجی کارروائی غزہ میں امن وامان کی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔ اس لیے اس کا بہتر حل یہی ہے کہ غزہ کو الگ تھلگ کرکے اسے مصرکے حوالے کردیا جائے۔
صیہونی تجزیہ نگار کے مطابق غزہ پر اسرائیل کی فوج کشی غرب اردن جیسی صورت حال پیدا کرسکتی ہے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنھبال سکتی ہے اور اس پر مکمل قبضہ بھی کرسکتی ہے مگر اصل پیچیدگی حماس اور اس کی عوامی حمایت کی موجودگی ہے۔ جب تک حماس کا کسی نا کسی شکل میں غزہ میں اثرو رسوخ موجود ہے اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنے کے بعد بھی اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ غزہ کی پٹی کے راکٹوں اور سرنگوں کے مسئلے کی طرح حماس کی طرف سے لاحق خطرہ بھی ختم کردیا جائے تو اسرائیل کو جنوبی محاذ کی طرف سے درپیش چیلنجز ختم ہوجائیں گے۔ مگر ایسی تجویز دینے والے یہ بھول رہے ہیں کہ اصل مسئلہ حماس اور اس کی عسکری قوت ہے جو وقت گذرنے کے ساتھ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اسرائیلی فوج کا غزہ کی پٹی میں داخل ہونا ہی کافی نہیں بلکہ حماس کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔ اس کا مثالی حل صرف یہ ہے کہ غزہ کو سنہ 1967ء سے پہلے والی پوزیشن پر مصر کے حوالے کردیا جائے۔
زاحی لیوی کا کہنا ہے کہ ’مصر غزہ کا بوجھ اپنے ذمہ لینے کی کسی تجویز کوقبول نہیں کرے گا تاہم اسرائیل کی طرف سے بعض علاقائی اور عالمی قوتوں کے ذریعے قاہرہ پر اس تجویز کو قبول کرنے کے لیے دباؤ اور امداد کا لالچ دے کرمنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح اسرائیل غزہ کو اپنی طرف سے مکمل طور پر سیل کردے اور دو ملین فلسطینیوں کو مصر کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے۔
مصرکی اقتصادیات سعودی عرب کی مرہون احسان ہیں۔ جزیرہ نما سیناء میں مصری فوج کی تعیناتی کی اسرائیل کی طرف سے دی گئی سہولیات جو کہ امن معاہدے کے خلاف ورزی شمار ہوتی ہیں کے بدلے میں قاہرہ کو غزہ کے ساحل پر موجود گیس کے وسائل سے استفادہ کرنے کی پیش کش سے رام کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکا بھی مصر کو صدی کی ڈیل کے تحت غزہ کو اپنے قبضے میں لینے کی تجویز پیش کرسکتا ہے۔ اس کے بدلے میں امریکا مصر کے لیے بین الاقوامی امداد کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ یہی وہ طریقہ کار ہے جو اس وقت امریکا ایران، شمالی کوریا، یورپ اور چین کے حوالے سے اپنائے ہوئے ہے۔ امریکا دباؤ اور دھمکیوں کے ذریعے اپنے مذاکراتی نتائج کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔
جہاں تک غزہ کی اندرونی صورت حال کی بات ہے تو زاحی لیوی کا کہنا ہے کہ غزہ کو مصر کے حوالے کرنے سے قبل حماس کو غیرمسلح کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے اسرائیل کو وسیع اور بھاری فوجی کارروائی کرنا ہوگی۔ حماس کے دفاعی ڈھانچے کے حل کے بدلے میں السیسی اسرائیلی ٹینکوں سے غزہ کے عوام کی زندگیاں بچانے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
لیوی کے بہ قول موجودہ حالات غزہ کو مصر کے حوالے کرنے کے لیے سازگار ہیں۔ امریکا غیرمشروط طورپر اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔ فلسطینی خود گومہ گوں کا شکار ہیں۔ اعتدال پسند عرب ممالک بھی اسرائیل کے حامی ہیں اور وہ مل کر ایران کا مقابلہ کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ غزہ میں حماس کے خلاف فیصلہ فوجی کارروائی اور غزہ کو مصر کے حوالے کرنے کے لیے موجودہ وقت بہت حد تک موزوں ہے۔