فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اقوام امتحدہ ریلیف ایجنسی ’اونروا‘ کے ترجمان کریس غینز نے ایک بیان میں بتایا کہ امریکی امداد کی بندش کے بعد ہمیں فلسطین کے اندر ادارے کے ساتھ کام کرنے والے 250 ملازمین کو نکالنا پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم غرب اردن کے 154 اورغزہ کی پٹی کے 113 ملازمین کے کنٹریکٹ کی تجدید نہیں کررہے ہیں۔ ایجنسی کی جانب سے فارغ کیے گئے ملازمین کو بتا دیا گیا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ فلسطینی ملازمین کو نکالنے کی وجہ امریکا کی طرف سے ’اونروا‘ کی 300 ملین سالانہ امداد کم کرنے کا اقدام ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ ایجنسی کے ساتھ کام کرنے والے مزید پانچ سو فلسطینی ملازمین کو فل ٹائم ملازمت کے بجائے پارٹ ٹائم پر رکھا جائے گا۔
خیال رہے کہ امریکی حکومت نے چند ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین پناہ گزینوں کو دی جانے والی سالانہ 36 کروڑ ڈالر کی امداد کم کرے صرف چھ کروڑتک محدود کردی تھی۔ امریکی امداد کا حجم فلسطینی پناہ گزینوں کو ملنے والی کل امداد کا 30 فی صد تھا۔ کٹوتی کے بعد ایجنسی کو غیرمعمولی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امریکا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی کو دی جانے والی امداد میں کمی کے نتیجے میں ادارے کو تعلیم، صحت اور ہنگامی امداد سمیت کئی دوسرے شعبوں میں اپنی سروسز کو محدود کرنا پڑا ہے۔
’اونروا‘ کی جانب سے فلسطینی ملازمین کو نکالے جانے کے اقدام پر غزہ اور غرب اردن میں ’ایجنسی‘ کے خلاف فلسطینی مظاہرے کررہے ہیں۔ ملازمت میں توسیع نہ ملنے پر ایک شہری نے خود سوزی کی کوشش کی جب کہ خواتین اور بچوں کا احتجاج کے دوران ان رو رو کر برا حال ہوگیا ہے۔
اقوام امتحدہ ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (اونروا) کا قیام سنہ 1949ء کو عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ ادارہ کل پچاس لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں میں سے 30 لاکھ پناہ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ سنہ 1948ء کی جنگ میں صیہونی ریاست کے فلسطین پر قبضے کے دوران نکالے گئے فلسطینی اندرون ملک، اردن، لبنان اور شام میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔