فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق خبر رساں ادارے’وفا‘ سے بات کرتے ہوئے ابو مرزوق نے کہا کہ مصری قیادت کی طرف سے فلسطینی دھڑوں میں مصالحت اور مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کے حوالے سے جو تجاویز پیش کی گئیں وہ قابل عمل ہیں اور حماس نے انہیں قبول کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مصالحتی عمل کے لیے از سر نو مذاکرات نہیں کیے جائیں گے بلکہ پہلے سے طے شدہ امور پرعمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں حماس رہنما نے کہا کہ فلسطینی دھڑے سنہ 2011ء کے قاہرہ مصالحتی سمجھوتے کو قبول کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام تجاویز پرعمل درآمد کے لیے ٹائم فریم مقرر کیاجائے گا۔ مصالحتی عمل کا آغاز غزہ پر عائد کردہ فلسطینی اتھارٹی کی پابندیوں کے خاتمے سے ہوگا۔ اس کے بعدÂ فلسطینی وزراء کو غزہ میں اپنی حکومتی ذمہ داریاں سنھبالیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطین میں ایک نئی قومی حکومت کی تشکیل کے لیے بات چیت شروع کی جائے گی۔
حماس رہنما نے کہا کہ ان کی جماعت فلسطینی دھڑوں میں غیر مشروط مصالحت کی حامی ہے اور پہلے سے طے پائے مصالحتی معاہدوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے پورے عزم اور ارادے کے ساتھ کام کررہی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ تحریک فتح بھی اپنے فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی خدمت کے لیے مصالحت کے عمل میں سنجیدگی کے ساتھ شامل ہوگی۔
ابو مرزوق نے خبردار کیا کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کی پٹی پر عائد کردہ پابندیوں کا خاتمہ نہ کیا گیا تو مصالحتی عمل تعطل کا شکار رہے گا۔Â فلسطینی اتھارٹی کو پچھلی حکومت کے دور میں غزہ میں بھرتی ہونے والے تمام ملازمین کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مالی حقوق کی فراہمی کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے ملازمین کے حوالے سے حماس کے مطالبے کے مطابق عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد جماعت غزہ میں ٹیکسوں کا شعبہ فلسطینی حکومت کے سپرد کردے گی۔